یہ دل تو پہلے ہی قائل ہے تیری خوش بیانی کا
تیرا انداز یکتا ہے دلوں کی ترجمانی کا
بہت دن ہوگئے ہیں خواب میں دیکھے ہوئے تم کو
ہمیں بھی دو شرف آکر تم اپنی میزبانی کا
مجھے بھی فیض مل جاتا یقیناً ذات سے تیری
اگر میں حصہ بن جاتی تمھاری زندگانی کا
ہمیشہ وہ ہی دل توڑتے ہیں یا رلاتے ہیں
جنہیں احساس ہوتا ہے محبت کے معانی کا
وطن سے دُور رہ کر کیا دلِ بیمار پر گزری
سنائوں کیا تمہیں قصہ میں اپنی بے سامانی کا
دعائیں پوری ہوجائیں، کوئی تعویذ چل جائے
ہے دل پھر منتظر کوئی صدائے آسمانی کا
تمھارے نام سے وابستہ ہے خوشیاں زمانے کی
بچھڑ کے دیکھا ہے نہ کوئی لمحہ شادمانی کا
ہمیشہ زندہ رکھتے ہو مجھے غزلوں میں تم اپنی
فخر ہے میں ہی ہوں عنوان تیری ہر کہانی کا
کبھی آہیں، کبھی آنسو، کبھی بے جین دل تھاموں
نتیجہ یہ ہی ہوتا ہے زخم سے چھیڑ خانی کا
سنابلؔ کے لئے تو اہم ہے بس ایک ہی بندہ
بتائو مُعتبرؔ کیا ہے ارادہ عقدِ ثانی کا ؟؟