یا رب جُنون نواز کو وہ اختیار دے
اہلِ خرد کی زلفِ پریشان سنوار دے
پھولوں کا شوق ہو تو لٹاؤ جگر کا خوں
میری طرف سے کوئ چمن میں پکار دے
کُندن تجھے بنانی ہے گر اپنی زندگی
پہلے رِدائے حرص و تعصب اتار دے
کھو کر قرار سرِ خودی پا گیا ہوں میں
اے دوست اب نہ مجھکو متاعِ قرار دے
آبِ حیات جانکے پیتا رہوں گا میں
ساقی تو جامِ زہر مجھے بار بار دے
خود جھک کے چوم لے گا جبیں تیری آسماں
پہلے غمِ زمانہ کو ٹھوکر تو مار دے
غمہاے زندگی سے پریشان ہوں کاشفی�
میرے گلے میں اپنی محبت کا ہار دے