ہیں وعدے بہت پر نبھانے نہیں آتے

Poet: محمد نوید By: Muhammad Naveed, Islamabad

ہیں وعدے بہت پر نبھانے نہیں آتے
سکے بھی وفاؤں کے چلانے نہیں آتے

ہم نے تو کر دی حوالے نگری دل کی
کہ تمہیں تو بسانے آشیانے نہیں آتے

تم نے روند ڈالی پیار کی پختہ دیواریں
ہمیں مٹی کے گھروندے بھی گرانے نہیں آتے

بتاؤ خود کیوں آوارہ مارے مارے پھرتے ہو
تم تو کہتے تھے اب مجنو دیوانے نہیں آتے

جو گنوا بیٹھے ہو نوید تو ذرا تھم کے بیٹھو
اتنی جلدی پلٹ کر وہ زمانے نہیں آتے

Rate it:
Views: 465
12 Dec, 2017