ہم کو ملنا ہے تو ملنے کا ارادہ کر لیں
آؤ پھر رسمِ محبت کا اعادہ کر لیں
کھل بھی سکتے ہیں محبت کے نئے پھول یہاں
اپنی سوچوں کا اگر دشت کشادہ کر لیں
کیا ضرورہ ہے رہیں مجھ سے خفا وہ ہر دم
پیار کی بات ہے تو پیار زیادہ کر لیں
اُونچے محلوں کے یہاں خواب سجانا چھوڑیں
جتنے رنگین ہیں افکار وہ سادہ کر لیں
سارے چھپ جائیں لگے تیر جفا کے وشمہ
اپنے زخموں کو بدن کا جو لبادہ کر لیں