کہتے ہیں عید آئی ہے

Poet: Sajid Bin Zubair By: Sajid Bin Zubair, Bahawalnagar

کہتے ہیں عید آئی ہے
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے

کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
کیسے مناتے ہیں اسکو کیسے سجاتے ہیں اسکو

کس رنگ میں آتی ہوگی کس ڈھنگ میں جاتی ہوگی
کوئی پوچھے تو کیا بتاؤں یا اپنے اندر کا سماں دکھاؤں

یقینا کالی گھٹا ہوگی بادلوں سی برپا ہوگی
آندھیوں سی مچلتی ہوگی بارشوں سی برستی ہوگی

کسی آنگن میں ناچتی ہوگی کسی دامن میں کانپتی ہوگی
کہیں اشکوں میں بہتی ہوگی کہیں آنکھوں میں رہتی ہوگی

کسی من میں دھڑکتی ہوگی کسی من میں اچھلتی ہوگی
خوابوں سے دور ہوکر حجابوں میں ملبوس ہوکر

کسی گلی محلے میں کسی شہر سولے میں
رونقیں اُبھارتی ہوگی محفلیں زنگارتی ہوگی

خواب دے کر آنکھوں کو پھر شب بھر بچھاڑتی ہوگی
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے

کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
کس رنگ میں عیاں ہوگی یا الفتوں میں بیقراں ہوگی

آہٹوں میں پنہاں ہوگی نفرتوں میں زیاں ہوگی
اک رنگ میں دیکھی میں نے اک جنگ میں جھیلی میں نے

مجھے تو سانپ لگتی ہے مجھے تو کانپ لگتی ہے
مجھے کاٹا ہے عیدوں نے مجھے نوچا ہے عقیدوں نے

یقینا بے نوا ہوگی کھلتے پھولوں پہ وبا ہوگی
تارہ ٹوٹنے کا نام ہوگی ہجرتوں کا جام ہوگی

یہ عید بھی فنا ہوگی یہ عید بھی سزا ہوگی
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے

کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
بھولی بھٹکی بیچاری دَر دَر پہ تھکی ہاری

چہروں پہ غنود تاری آہوں سے وجودبھاری
بِلکتی سِسکتی خاکساری مَن مست دہلیزوں پہ جاری

کہیں پہ دَرد نُماں ہوگی کہیں پہ مہرباں ہوگی
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے

کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
کس کی ہے عیدیارو بن دید کے گزرنے والی

عید یہ مجھ سے سجائی نہ جائے گی منائی نہ جائے گی
تم نے جو پائی ہے تو مبارک ہو تمہیں عید یارو

Rate it:
Views: 651
21 Jul, 2020
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL