چمکا شبِ گمان میں جگنو گریز کا

Poet: Shabbir Nazish By: Shabbir Nazish, Karachi

چمکا شبِ گمان میں جگنو گریز کا
نِکلا یقیں کی آنکھ سے آنسو گریز کا

ہم بہہ رہے تھے عشق میں دریا دِلی کے ساتھ
جانے کہاں سے آ گیا پہلو گریز کا

کم کم سُخن کِیا گیا کچھ دن اور اُس کے بعد
سر چڑھ کے بولنے لگا جادو گریز کا

منظر بدل رہا ہے کہ دشتِ خیال میں
رَم بھر رہا ہے شوق سے آہو گریز کا

بس آہ بھر کے ہو رہے اُس گل پہ ہم نثار
پیغام لے کے آئی تھی خوشبو، گریز کا

آیا ہی تھا خیال شبِ وصل کا مجھے
پہرہ بٹھا دِیا گیا ہر سُو گریز کا

مائل تو ہے گریز پہ نازش! مگر بتا
مطلب بھی جانتا ہے بھلا تُو گریز کا؟

Rate it:
Views: 498
09 Jan, 2013
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL