وہ رخصت کی گھڑی وہ دیدۂ نم یاد آتے ہیں
Poet: قیصر صدیقی By: ایاز, Rawalpindiوہ رخصت کی گھڑی وہ دیدۂ نم یاد آتے ہیں
نہ جانے آج کیوں بھولے ہوئے غم یاد آتے ہیں
یہ چشم دوست کی سازش نہیں تو اور پھر کیا ہے
کہ میرے مندمل زخموں کے مرہم یاد آتے ہیں
ہوا ہے جب سے دل صید ستم ہائے غم دوراں
وہ یاد آتے تو ہیں لیکن بہت کم یاد آتے ہیں
یہاں ہم غم غلط کرنے کو آئے تھے مگر ساقی
قیامت ہے کہ میخانے میں بھی غم یاد آتے ہیں
کوئی جب چھیڑتا ہے قصۂ دار و رسن قیصرؔ
تو دیوانوں کو ان کی زلف کے خم یاد آتا ہے
More Sad Poetry






