نقوش اپنی یادوں میں کون سا ہوں؟
میں سایا ہوں، خوابوں میں بکھرا ہوا ہوں
کسی داستانِ قدیمہ کا حصہ ہوا ہوں
کبھی میں تھا محفل میں روشن چراغوں سا
ابھی راکھ میں دب کے ٹھنڈا ہوا ہوں
یہ لمحے، یہ گلیاں، یہ ویران رستے
کہاں میں تھا کل تک، کہاں کھو گیا ہوں؟
کبھی وقت نے مجھ کو مٹی بنایا
کبھی آبِ چشموں میں بہتا ہوا ہوں
کبھی رنگ سا تھا کسی کی نظر میں
کبھی خاکِ در پر بکھرتا ہوا ہوں
جو پلکوں پہ آ کے ٹھہر بھی نہ پایا
میں آنسو تھا شاید، گرا یا بہا ہوں؟
مجھے ڈھونڈتا ہے میرا آئینہ بھی
کہ میں عکس تھا یا فنا ہو چکا ہوں؟
یہی سوچتا ہوں میں راتوں کی چُپ میں
نقوش اپنی یادوں میں کون سا ہوں؟