زندگانی اب کہاں فرصت میں ہے
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے