مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
Poet: سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی By: سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی, فیصل آباد، پنجاب، پاکستان.مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
تم یوں نہ ستم ڈھایا کرو
تمہارے بعد جینا جیسے ادھورا ہے
بے کار سی سانسیں جیسے ہر پل تمہارا ہے
پرچھائی کی مانند
کسی سچائی کی مانند
میرے ساتھ چل کر
ہر سانس میں ڈھل کر
نہ اتنا دور جایا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
تمہاری آواز مجھے سونے نہیں دیتی
اداسی ء دل کو مجھے کھونے نہیں دیتی
تمہاری ہنسی کی کھنک کانوں میں رہتی ہے
پل پل رولاتی ہے پل پل تڑپاتی ہے
اک طلب ء لاحاصل اک درد ء لادو
کسی معصوم کو جیسے بے وجہ سی سز
عجب بے بسی جو کچھ کہنے نہیں دیتی
تمہیں پانے نہیں دیتی
مجھے جانے نہیں دیتی
میری لاحاصل تمنا کو
میرے بے چین سے دل کو
نہ تم اتنا ستایا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
سرد ہواؤں میں
موسم کی اداؤں میں
پورے چاند راتوں میں
تاروں کی خنک چھاؤں میں
تپتی ہوئی یادوں میں
بھولی بسری باتوں میں
ہلکی ہلکی برساتوں میں
تم اتنا نہ رولایا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
چلو آج بانٹ لیں مل کے
سبھی آنسو سبھی غم اپنے
جو ادھورے رہ گئے تھے
وہ خواب سبھی سپنے
چلو تجدید ء وفا کرو
پھر سے وعدہ ء نبھا کرو
جو کہو تو بھر نبھایا کرو
کبھی تم بھی تو یہ صدا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
میرے ہم سفر میرے چارہ گر
یہ تلخ بہت ہے راہ گزر
تم دور ہو کیوں مجبور ہو
چل سب ہمیں منظور ہے
مگر اک فریاد ضرور ہے
تنہا جب تم پایا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
مجھے ڈر سا لگتا تھ
بکھرنے سے اجڑنے سے
یادوں کے آنے سے
تمہیں کھونے سے
تمہیں کھو کے رونے سے
تم عزیز ہو دل کے
بہت قریب ہو دل کے
مگر "گل ء نظر" کچھ پل میرے بھی رہنے دو
مجھے خود میں کھونے دو
وہ جو بکھر چکی ہے ذات میری
مجھے کرچی کرچی اٹھانے دو
میرے پاس آ کر
میری ہر آس پاکر
مجھے اتنا نہ آزمایا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
کیوں خاموشی کا راج ہو
کیوں جدائی ہی خراج ہو
جب آنسو تمہارے بہہ نکلیں
جب آنسو میرے بہہ نکلیں
جو دل عنبر لیئے بیٹھے ہو
جس درد میں سیسکتے رہتے ہو
کبھی سنو اور سنایا کرو
مجھے دل کی بات بتایا کرو
مجھے اتنا یاد نہ آیا کرو
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






