فرضی دعویدار ہے
Poet: آفتاب شکیل By: محمد رضوان, Lahoreفرضی دعویدار ہے
اپنی جو بھی یاری ہے
میرے وعدے پر مت جا
یہ بالکل سرکاری ہے
وقت کو کوسو کے اس کی
رگ رگ میں مکاری ہے
اور بھلا کیا ہے جینا
مرنے کی تیاری ہے
اک بس تو ہی ہے تیرا
باقی دنیا داری ہے
اور تو کیا کرتے تنہا
خود سے ہی جھک ماری ہے
تم کو پڑھ کر بھول گیا
دل بھی کیسا کاری ہے
دل نے عشق کی ناکامی
قسمت پر دے ماری ہے
غم کو اماں دینا آفیؔ
صدموں کی فن کاری ہے
More Sad Poetry






