سِر شاخِ گُل
Poet: Perveen Shakir By: Uzair Mushtaq, lahore, pakوہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
میرے وجود، میری شخصیت پہ چھائی ہے
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِ ریرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں
اُداسیوں کی کسی جانگذار ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سررکھ کے جب بھی روئی ہوں
تو میری پلکوں نے محسوس کرلیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس
نِمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں
کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے شبنم
تپاں ہوں لہجے
تو پھر پُھول پُھول ہے ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس مرہم
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے
کرن کرن میری سوچوں میں جگمگاتی ہے
مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند میرا
یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر
وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا
اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے
بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بند کیے
جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جارہی ہوں میں
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں، میرے آنگن پہ ٹھہرنے والا
شفیق، نرم زباں، مہرباں بادل ہے
میرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
ہزار چاند، سرِشاخ گُل اُبھرتے ہیں
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






