اس نے سونپا ہے مجھ کو سنّاٹا
میں جسے بھیجتا رہا آٹا
زندگی ہم نے یوں بسر کی ہے
وقت جیسے ہو جیل میں کاٹا
نفع کھاتے میں اسکے بھیج دیا
اپنے حصے میں رکھ لیا گھاٹا
ہڑ بڑا کر میں اٹھ کے بیٹھ گیا
اس نے ایسے لیا تھا خرّاٹا
کر کے اقرار پِھر گیا ہے جو
اس نے تھوکا ہؤا ہے پھر چاٹا
شکر ہے جان بچ گئی میری
کار گرزی ہے بھر کے فرّاٹا
چاروں صوبے رشیدؔ پیارے ہیں
بانچواں انگ اپنا ہے فاٹا