زمانہ آيا ہے بے حجابي کا ، عام ديدار يار ہو گا
Poet: Jaleel Ahmed By: Jaleel Ahmed, Hyderabadزمانہ آيا ہے بے حجابي کا ، عام ديدار يار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گيا اب وہ دور ساقي کہ چھپ کے پيتے تھے پينے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئي بادہ خوار ہو گا
کبھي جو آوارہ جنوں تھے ، وہ بستيوں ميں پھر آ بسيں گے
برہنہ پائي وہي رہے گي مگر نيا خارزار ہو گا
سنا ديا گوش منتظر کو حجاز کي خامشي نے آخر
جو عہد صحرائيوں سے باندھا گيا تھا ، پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کي سلطنت کو الٹ ديا تھا
سنا ہے يہ قدسيوں سے ميں نے ، وہ شير پھر ہوشيار ہو گا
کيا مرا تذکرہ جوساقي نے بادہ خواروں کي انجمن ميں
تو پير ميخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا
ديار مغرب کے رہنے والو! خدا کي بستي دکاں نہيں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عيار ہو گا
تمھاري تہذيب اپنے خنجر سے آپ ہي خود کشي کرے گي
جوشاخ نازک پہ آشيانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا
سفينہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کي ہو کشاکش مگر يہ دريا سے پار ہو گا
چمن ميں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلي کلي کو
يہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں ميں شمار ہو گا
جو ايک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہميں دکھايا
يہي اگر کيفيت ہے تيري تو پھر کسے اعتبار ہو گا
کہا جوقمري سے ميں نے اک دن ، يہاں کے آزاد پا بہ گل ہيں
توغنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا يہ رازدار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہيں ہزاروں ، بنوں ميں پھرتے ہيں مارے مارے
ميں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پيار ہو گا
يہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھي
رہے گي کيا آبرو ہماري جو تو يہاں بے قرار ہو گا
ميں ظلمت شب ميں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگي آہ ميري ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
نہيں ہے غير از نمود کچھ بھي جو مدعا تيري زندگي کا
تو اک نفس ميں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھي وہي کيفيت ہے اس کي
کہيں سر رہ گزار بيٹھا ستم کش انتظار ہو گا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






