بات بچوں کی تھی لڑنے کو سیانے نکلے

Poet: آتش اندوری By: مصدق رفیق, Karachi

بات بچوں کی تھی لڑنے کو سیانے نکلے
پھر عجب کیا ہے کہ بچے بھی لڑاکے نکلے

دھیان ماں رکھتی تھی میرا وہ زمانے نکلے
ہیں یوں اب روز سویرے سے کمانے نکلے

آم کے باغ سے جب سے ہیں پرندے غائب
بعد اس کے کہاں پھر آم رسیلے نکلے

پوٹلی جس کے لئے لڑتی رہیں اولادیں
ماں کی اس پوٹلی میں صرف جھروکے نکلے

یہ تو کل یگ ہے کھرا اس میں نہیں ہیں کوئی
مجھ کو شکوہ نہیں سکے مرے کھوٹے نکلے

پھر غریبوں کی شکایت کا خدا حافظ ہیں
جب وزیروں کے امیروں ہی سے رشتے نکلے

گرد جب صاف ہوئی سب نے یہ منظر دیکھا
جو نظر آتے تھے اونچے وہی بونے نکلے

ابتدا پھر سے ہے ایک اور سفر کی آتشؔ
بعد مرنے کے بھلے پیروں سے جوتے نکلے
 

Rate it:
Views: 164
18 Jun, 2025
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL