اسےپیارہم سےتب ہواجب ہم ھوگئے کسی اور کے
Poet: mehak ejaz By: mehak ejaz, lahoreکیوں آج سانس مجھسےالجھ رھی ہے
شایدپھریادوہی کہانی کررہی ہے
جب انزست کی تنہاراتوں میں ہم چھت پر جایا کرتےتھے
دیکھ کر تنھا چاندکوباتوں میں لگایاکرتے تھے
ویران اجڑی راہوں میں جگنوکوتلاشہ کرتے تھے
اک روز ہمیں اک شخص ملا
چاند کی طرح تنہا تنہا
سب کےلئےکچھ خاص نہ تھا
پرمیرےلئےوہ عام نہ تھا
ہمیں پیاراس سےہوگیا
اقراراس سےھوگیا
وہ بھی پیار ہم سےکرتاتھا
جانےکہنےسےکیوںڈرتاتھا
ہم پیاران سےکرتےرہے
وہ بدنام ہمکو کرتے رہے
محبت کی شدت سےپگھل جائیگا اک دن
ہم کوشش مسلسل کرتےرہے
پھراسکوترس ھم پر آہی گیا
میںپیارتم سےکرتاہوںیہ جملہ زباں پرآہی گیا
یہ سن کریم خوشی جھوم اٹھے
سوچا آج جشن ہم منائیں گے
اس کیلئےخودکوسجائیں گے
ہاتھوںمیںمبندی رچائیں گے
پھرگھرآیےتھےخودکوسجانےکیللئے
پہلےہی بارات آئی تھی ہمیںلےجانےکیلئے
وہ دیکھتارہامیںسجتی گئی کسی اورکیلئے
ہاتھوںمیںمہندی رچتی گئی کسی اورکیلئے
دل کررہاتھااسکےگلےلگ جاوں
جی بھرکرآج خودکورلاوں
پرایسانہ کرپائےہم
بس اتناہی کہہ پائے ہم
مجھےچھوڑکرتجھکوساتھ جانا ہےکسی اورکے
اس میںکچھ تیراقصورنہیںپیارے
تجھےپیارہی ہم سے تب ہواجب ہم ہوگئےکسی اورکے
بس اتنی شکایت ہےوقت سے
ہمیںاتنی مہلت تودی ہوتی
ہم محبت کاجشن منا لیتے
اس کیلئےکچھ دیرتوخودکوسجالیتے
اسکےنام کی مہندی رچالیتے
کیوںآج سانس مجھ سے الجھ رہی ہے
شایدپھر یاد وہ کہانی کر رہی یے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






