آزماتے ہیں

Poet: رشِید حسرتؔ By: رشِید حسرتؔ, تو آج ظرف تُمہارا بھی آزماتے ہیں

تو آج ظرف تُمہارا بھی آزماتے ہیں
اگر ہو اِذن تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیں

کہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضِر ہوں
کہو تو سر پہ کوئی آسماں اُٹھاتے ہیں

ہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیسا
تو چِیخ چِیخ کے کیا اِن کو ہم جگاتے ہیں

کُھلے نہ اُن پہ کہِیں اپنی تُرش گُفتاری
ہم اپنے آپ کو شِیرِیں سُخن بتاتے ہیں

چلو کہ ہم بھی مناتے ہیں دِن پِدر کا آج
پھر اُس کے بعد سِتم ہائے دِل پہ ڈھاتے ہیں

کبھی تو پاک تشخُّص پہ ناز کرتے تھے
اب اپنی "قوم" بتاتےہُوئے لجاتے ہیں

ابھی تلک ہے وہی سِلسِلہ محبّت کا
بصد خُلُوص عقِیدت میں سر جُھکاتے ہیں

نہِیں ہے ہم کو ضرُورت ہی دُم ہِلانے کی
کہ اپنی آپ کماتے ہیں، اپنی کھاتے ہیں

رشِید چلتا رہے گا یہ سِلسِلہ ایسے
بسے تھے کل جو یہاں آج لوٹ جاتے ہیں

Rate it:
Views: 376
21 Jun, 2022
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL