گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا
Poet: قیصر صدیقی By: تلال, Multanگھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا
مجھ سے پہلے مرا سایہ نکلا
پھاڑ کر دامن صحرا نکلا
میرے اندر سے جو دریا نکلا
اک تبسم جو ملا تھا مجھ کو
وہ بھی اک زخم تمنا نکلا
جس پہ کل سنگ ملامت برسے
آج وہ دار پہ عیسیٰ نکلا
آئنہ دیکھا جو عریاں ہو کر
جسم ہی جسم کا پردا نکلا
جس نے یہ بھیڑ لگا رکھی تھی
خود وہ اس بھیڑ میں تنہا نکلا
چہرہ ایجاد ہے آئینے کی
آئنہ نکلا تو چہرہ نکلا
آج اک خط کو جو کھولا قیصرؔ
اس میں سورج کا سراپا نکلا
More Sad Poetry






