کیوں اداس رہتی ہوں۔۔۔؟
Poet: UA By: UA, Lahoreمیں کیوں اداس رہتی ہوں
میں کیوں اداس رہتی ہوں
جب کہ میں ہر اک لمحہ
اپنے آس پاس ہی رہتی ہوں
اک گونہ گوں خلش ہے جو
کانٹوں کی طرح سے چبھتی ہے
نرم گرم یا سخت سرد
ہواؤں کے سنگ سنگ چلتی ہوئی
اک لہر سی اٹھتی ابھرتی ہے
جو دل کے پار اترتی ہے
دل کے نہاں خانوں سے نکل کر
میری روح کو چیرتی ہوئی
دائروں کی شکل میں بڑھتی ہے
جو میرا طواف کرتی ہے
میں خود میں سمٹ جاتی ہوں
جب یہ لہر میرے اطراف میں
اک ماؤرائی جال کا
ان دیکھا سا انجانہ سا
اک تانہ بانہ بنتی ہے
دائروں کا یہ ہالہ
ان دیکھے حصار کی طرح
میرے اطراف میں رہتا ہے
جو مجھ کو میرے ہی اندر
محصور بنائے رکھتا ہے
اور پھر یہی حصار
مجھے وہ راستہ دکھاتا ہے
اس جہاں میں لے جاتا
جو میرے دل کو بھاتا ہے
وہ تصویر بناتا ہے جس کا عکس
مجھے اکثر بس میری شبیہ دکھاتا ہے
اور وہ تصویر دکھاتا ہے
جس تصویر کو میرا تخیل
پل پل دیکھنا چاہتا ہے
باہر کی دنیا سے کٹ کر
دل اپنی بزم سجاتا ہے
پھر بھی میں دل کی دنیا میں
رہتے بستے بھی ڈرتی ہوں
کہ کوئی مجھے میرے اندر سے
آ کر باہر نہ لے جائے
کہیں میرے حصار الفت کو
کسی کی نظر نہ لگ جائے
اپنے اندر بیٹھی بیٹھی
اندیشے سوچتی رہتی ہوں
بس یہی وجہ ہے کہ اکثر
اس ڈر کو کوستی رہتی ہوں
اسی لئے تو اکثر ہی
خود سے یہ پوچھتی رہتی ہوں
میں کیوں اداس رہتی ہوں
میں کیوں اداس رہتی ہوں
گرچہ میں ہر اک لمحہ
اپنے آس پاس ہی رہتی ہوں
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







