کہو تو لوٹ جاتے ہیں
Poet: By: Bushra, karachiکہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو چلتے رہتے ہیں
ابھی تو بات لمحوں تک ہے ، سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی ، نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری ، خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں تک ہے ، بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوڑھ جاتے
ابھی کاجل کی ڈوری ، سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے ، زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشک کستوری غزالوں تک نئی آئی
ابھی روداد بے عنوان ، ہمارے درمیان ہے
دنیا والوں تک نہیں آئی ، کہو تو لوٹ جاتے
ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
وہ بادہ نار ہو جائی یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے
یہ رستہ پیار کا رستہ رسم کا دار کا رستہ
بہت دشوار ہے جانا
کے اس رستے کا ہر ذرہ بھی ، اک کوہسار ہے جانا
کہو تو لوٹ جاتے
مرے بارے نا کچھ سوچو ، مجھے طے کرما آتا ہے
رسم کا دار کا رستہ ،
یہ آسیبوں بھرا رستہ ،
یہ اندھی غار کا رستہ ،
تمہارا نرم و نازک ، ہاتھ ہو گر میرے ہاتھوں میں
تو میں سمجھوں کے جیسے دو جہاں ہیں ، میری مٹھی میں
تمہارا قرب ہو تو ، مشکلیں کافور ہو جائی
یہ اندھے اور کالے راستے ، پر نور ہو جائی
تمھارے گیسوئوں کی چھاؤں مل جائے ،
تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے
اٹھا لو اپنا سایہ تم ، میری اوقات ہی کیا ہے
مرے بارے نا کچھ سوچو ، تم اپنی بات بتلائو
کہو تو چلتے رہتے ہیں ، کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو چلتے رہتے ہیں
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






