وہ ملے غم کہ بس شمار گئے

Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوال

وہ ملے غم کہ بس شمار گئے
جنہیں پھر خُوں ہوئے سہار گئے

جانیے تھی وہ زندگی کس کی
مرتے دم تک جسے گزار گئے

مجھ سے راتیں مری نہ ہوئیں بسر
دن مرے دِن مجھے بسار گئے

کبھی سوچا بھی تُو نے تیرے سبب
کتنوں کے خُود سے اختیار گئے

دکھ یہ ہے کہ وہ کلی نہ پھول ہوئی
اور یہ غم اُس کلی سے خار گئے

غمِ ہجراں میں کیا نہ کھویا گیا
چیتھڑے تک بدن کے تار گئے

ہمیں بخشا گیا فراق اپنا
قرض تھا اُن پہ، سو اُتار گئے

ہوئی کربل بپا جب اُٹھ کے ہم
اُس گلی سے دِوانہ وار گئے

رن میں افسوس قتل نہ ہو سکا
ہائے قسمت کہ خالی وار گئے

میں تلاشِ رقیب میں تھا غرق
کیا خبر یار کب سِدھار گئے

کتنے ہی آستاں ہوئے ویران
کتنے مقبول خاک و خوار گئے

آخرش جیت کس کی پیاری تھی
جس کی خاطر ہر اِک سے ہار گئے

ہمیں عادت تھی روز مرنے کی
یُوں ہمیں چھوڑ جاں نثار گئے

پیتا اب بھی ہوں لڑکھڑاتا نہیں
مے کشی رہ گئی، خمار گئے

Rate it:
Views: 371
09 Aug, 2013
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL