جو میری زندگی کا نشان تھا وہ چراغ اب بجھنے کو ہے
Poet: Dr. Humera Islam By: Dr. Humera Islam, Karachi.جو میری زندگی کا نشان تھا وہ چراغ اب بجھنے کو ہے
میرے ساتھ ساتھ تھا جو چل رہا وہ قافلہ اب رکنے کو ہے
میرے جذبے سارے مر گئے میرے دل میں کوئی امنگ نہیں
جو خواب تھا میری زندگی وہ خواب اب بکنے کو ہے
میری زندگی مجھ پہ بوجھ ہے رہی میرے دل کا روگ ہے
جو بہت گراں تھا مجھے سدا وہ سانس اب رکنے کو ہے
وہ زخم نارسائی جو میری روح تک میں اتر گیا
وہ بدل گیا ناسور میں وہ ناسور اب رسنے کو ہے
مجھے کیا ملا؟ کیا نہیں ملا؟ اب یہ سوچنا بھی فضول ہے
جو وقت تھا تھوڑا زیست کا وہ وقت اب کٹنے کو ہے
میرے ساتھ کوئی چلا نہیں کوئی اپنے جیسا ملا نہیں
بس ایک زندگی کا ہی ساتھ تھا وہ ساتھ اب چھٹنے کو ہے
جسے انتظار میرا ازل سے تھا اور پکارتا تھا مجھے رات دن
اس ویران قبرستان میں وہ قبر اب بسنے کو ہے
کہاں منزلوں کی امید ہو میں تو چند قدم میں ہی تھک گئ
یہ شکستہ حال تھکا جسم کوئی لمحہ اب گر نے کو ہے
میں بھلاؤ ں کس کس فریب کو میں بھلاؤں کس کس عذاب کو
پیش آئینہ تو نہیں مگر پسِ آئینہ اب دکھنے کو ہے
چلو ختم ہوئیں میری مشکلیں اور نجات بھی تم کو ملی
بہت دیر سے جو مقیم تھا وہ آوارہ اب چلنے کو ہے
میرے منتظر تھے بہت دور جو انہیں آج یہ نوید ہو!
انہیں عدم کے اس جہان میں میرا ساتھ اب ملنے کو ہے
مجھے یاد کوئی کیوں رکھے؟ میرے ساتھ جب کوئی چلا نہیں
وہ جو لوح قبر پہ تھا لکھا گیا میرا نام اب مٹنے کو ہے ۔۔۔ !
ڈاکٹر حمیرا اسلام
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






