ایسا بھی دیکھا
Poet: Akram Durrani By: Akram Durrani, California -USAو ہ میر ے سا منے سے گز ر ا ا ور جا تے ھو ئے مجھے ا پنے سا تھ لے گیا
ا س کے قر ب پا نے کا یو ں ز ند گی میں اپنی پہلا حسین خو ا ب د یکھا
و ہ ملا تو اپنی چھو ٹی سی کا ئینا ت میں ا ک بڑ ا بنتے جہا ن د یکھا
ر ب کی طر ح ملا تو اپنے گنا ھو ں کا جا تا ھر عز ا ب یکھا
چلتے چھلکتے مینا ؤ سا گر ا س کی آ نکھو ں میں دیکھ کر
مد ھو شی مجھ پے چھا ئ بن میکد ے کے پیتے خو د شر ا ب د یکھا
سمٹ سکٹر کے حیا میں ڈ بو ئے پلکیں جھکا ئے جب بھی بیٹھا و ہ
ںد امت میر ی آنکھو ں جھا گئ چھر ے پے ا س کے جب ایسا حجا ب د یکھا
آ نکھو ں میں صو ر ت ا سکی میر ے سما ئ اسطر ح پھر کچھ نا دیکھ پا یا میں
بھر ی محفل جب بھی گئ نظر میر ی ھر چھرے کو میں نے ا و ڑ ھے حجا ب د یکھا
کما ں سی ابر ؤ ں کو اسکی جب کھچتے دیکہا اسطر ح کے ا پنے
جگر کو تیر وں سےاسکے چھلنی ھو تےبڑ ابے تا ب دیکھا
سیا ہ بل کھا تی لحر اتی ز لفیں جب لپٹ گئیں مجھ سے تو میں نے
رقص ا پنےتن پے کر تی کا لی نا نگنوں کو ڈ ستے بڑ ا لا جو ا ب دیکھا
جو ں جو ں جو اں و ہ ھو تا گیاقر بتو ں کو میر ی فا صلو ں میں بدل ڈ ا لا ایسے
کے حیا ا سے آ ئ ا س و قت چڑ ھتا خو د پر جب اپنا شبا ب د یکھا
فلا ں کی جھیل سی گھری آ نکھو ں میں ڈو ب مر نے کی با تیں نا کرو خو د کحھ گیا وہ
کنا را بنو ں گا میں تیر ا تیر ی نیا کا پتو ا ر میرے ھا تمیں کیآ آپ نے نیں جنا ب د یکھا
بیچ سمند ر میں ز ند گی کی ناؤ میر ی ا لٹ کر غر ق ھو گئ ا س لمحہ
اپنے ھی رقیب کو جب ا س کےھا تھو ں کر تے چمن سیر ا ب د یکھا
بسا نے دنیا اپنے گھر سے نکلا میر ی قسمت تو د یکھو کہاں لا ئی
اس کےگھر کا تو ذ کر کیا خو د اپنے ھی گر کا ابنے ا و پر بند ھو تے باب د یکھا
سجد و ں میں گر کے ر و یا سب کچھ ا پنا قر با ن کر دیا دیکھو پھر بھی مگھر
مسجد کلیسا مند ر و ں کا پھر بھی بند ھو تے اپنے ا و پر ھر باب د یکھا
و حشت د ل ھے تو کھتا ھو ں کبھی پیا ر نا کرنا بہت پچھتا ؤ گے یا رو
میں نے اپنے ا و پر ھی نہیں بہت ا وروں پے ھو تا ایسا ھی عذ اب د یکھا
تھک ھار کر اس کی خو شی کی خا طر اپنی گر د ن و ھا ں ر کھ دی
مقتل میں کھڑا اس کو انتظا ر میں میر ے استاد قصا ب د یکھا
بے گو ر و کفن لا شہ د ر ا نی کا ا س کے اپنے ھی کا ندھو ں پر ھی رہ گیا
ز ند ز ند گی میں ھی ا پنی قبر کا ھو تے جب ا سطر ح بے حسا ب د یکھا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






