چمن دھرنے کو 7 ماہ مکمل، ’طویل ترین دھرنے کا عالمی ریکارڈ قائم‘

image

افغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چمن میں سرحد پر آمدورفت پر پابندیوں کے خلاف جاری احتجاجی دھرنے کو سات ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ دھرنے کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ ان کے احتجاج نے طویل ترین دھرنے کا ’نیا عالمی ریکارڈ‘ قائم کردیا ہے۔

مطالبات نہ ماننے اورگذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کے خلاف طاقت کے استعمال کے خلاف بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع میں پہیہ جام ہڑتال کی جا رہی ہے۔

یہ ہڑتال پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی اپیل پر کی جا رہی ہے۔

کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، چمن، ژوب اور لورالائی میں مختلف مقامات پر کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ، بلوچستان کو پنجاب اور خیبر پشتونخوا سے ملانے والی بین الصوبائی  شاہراہوں کو کارکنوں نے رکاوٹیں کھڑی کرکے احتجاجاً بند کر دیا ہے۔

چمن میں افغان سرحد کے قریب 21 اکتوبر 2023 کو افغانستان اور پاکستان کی سرحدی گزرگاہ پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے یعنی ون ڈاکومنٹ رجیم کے اطلاق کے خلاف  دھرنا دیا جا رہا ہے۔ منگل کو اس دھرنے کو سات ماہ اور 213 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ 

گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق طویل ترین دھرنے کا ریکارڈ امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر گرینز بورو کے چار افریقی نژاد سیاہ فام طلبا کے نام ہے جنہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف یکم فروری 1960 سے 25 جولائی 1960یعنی 175 دنوں تک دھرنا دیا۔

اُن دنوں اس امریکی شہر میں واقع ایک سٹور میں سفید فام افراد کے لیے الگ جگہ مختص تھی جہاں سیاہ فام طلبا کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی جس پر ان چاروں طلبا نے احتجاج شروع کیا۔

شہری حقوق کے لیے احتجاج کے اس طریقے کو’سِٹ اِن‘ یا ’دھرنے‘ کا نام دیا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا نے اسے دنیا کے پہلے نمایاں دھرنوں میں ایک قرار دیا ہے جس کی وجہ سے نسلی امتیاز کے خلاف طلبہ کی تحریک امریکہ بھر میں پھیلی۔

پاکستان میں دھرنے سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے لیے اہم ہتھیار بن چکے ہیں اور اس نے سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی طاقت دکھائی ہے۔

حالیہ تاریخ کے سب سے قابل ذکر دھرنوں میں سال 2014 کا 126 روز تک جاری رہنے والا پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا ہے جس کی قیادت سابق وزیراعظم عمران خان نے کی۔

صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ 21 اکتوبر سے شروع ہونے والا دھرنا بغیر کسی وقفے کے جاری ہے (فوٹو:مولاداد)

بلوچستان میں بھی اس سے پہلے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں نشانہ بننے والے ہزارہ برادری کے افراد، گوادر میں حق دو تحریک سمیت  سیاسی و سماجی تنظیمیں، کسان و مزدور یونین اور مختلف طبقات کی جانب سے دھرنے دیے جاتے رہے ہیں۔

چمن میں احتجاج پر بیٹھے چمن میں احتجاج پر بیٹھے مظاہرین کے ترجمان حاجی صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ 21 اکتوبر سے شروع ہونے والا دھرنا بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔

’ہم نے گرمی، سردی ، بارش، برفباری اور حتیٰ کہ عید کا تہوار بھی اسی احتجاج میں گزارا۔ تین مرتبہ ہم پرحکومت کی طرف سے طاقت کا استعمال کیا گیا ، اس دوران کم از کم تین مظاہرین گولیاں لگنے سے ہلاک جبکہ بڑی تعداد مین زخمی ہوئے۔‘

صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ تمام سختیاں برداشت کرکے پُرامن احتجاج کے ذریعے اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمارے احتجاج کو سات مہینے پورے ہو گئے ہیں اور یہ دنیا کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا ہے۔‘

بلوچستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے صحافت  کرنےوالے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ چمن کا دھرنا صوبہ ہی نہیں پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین احتجاج ہے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’اس دھرنے نے چمن کے لوگوں کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجز اورپاک افغان جغرافیائی سیاسی تعلقات کی پیچیدگی کو اُجاگر کیا اور سرحدی سلامتی اور سرحد پار تجارت کے لیے متوازن نقطہ نظر کی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔‘

اس احتجاج  کو جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، انجمن تاجران سمیت 20 سے زائد تنظیموں اور جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

چمن میں دھرنا پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خلاف دیا جا رہا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ابتدائی دنوں میں تقریباً چار مہینوں تک گاڑیوں کی آمدروفت روک کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو بھی احتجاجاً روکے رکھا۔

بعد ازاں حکومتی یقین دہانی پر تجارتی سرگرمیوں کو اجازت دی مگر وعدہ خلافی اور چار مئی کو دھرنے کے شرکاء  کے خلاف طاقت کے استعمال پر دوبارہ ہر قسم کی تجارت کو بند رکھا۔‘

چمن میں یہ دھرنا پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خلاف دیا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے یکم نومبر 2023 سے ہر قسم کی آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دی ہے۔

اس سے پہلے چمن سے ملحقہ افغان صوبہ قندہار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز ’تذکرہ‘ پر پاکستان میں اور شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ رکھنے والے پاکستانی باشندوں کو افغانستان میں داخلے کی اجازت حاصل تھی  تاہم حکومت نے دونوں جانب کے سرحدی علاقوں کے باشندوں کو حاصل یہ چھوٹ بھی ختم کر دی۔ 

پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی گزرگاہیں ہیں۔ طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا گیا تھا تاہم چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق میں حکومت کو مزاحمت کا سامنا ہے۔

76 برسوں میں پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا یہ پہلا موقع ہے جس کی وجہ سے مزدوری، تجارت، علاج یا پھر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سرحد پار آنے جانے والے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں کے رہائشیوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ایف آئی اے کے اعدادوشمار کے مطابق پابندی لگنے سے پہلے روزانہ 15 سے 20 ہزار افراد یہ سرحد عبور کرتے تھے جن میں سے نصف سے زائد تعداد افغان باشندوں کی ہوتی تھی اور صرف دو فیصد کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہوتا تھا۔

پاسپورٹ اور ویزا کی نئی شرط علاج، کاروبار، روزگار اور پناہ کی تلاش میں پاکستان آنے والے افغان باشندوں بالخصوص بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے پشتون اکثریتی جنوبی صوبے قندھار کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہر چمن کے باشندوں اور سرحد پر آباد منقسم قبائل کو متاثر کیا ہے۔

چمن سے تعلق رکھنے والے صحافی اختر گلفام کے مطابق چمن سے تعلق رکھنے والے تقریباً سات ہزار پاکستانی باشندوں کی افغانستان کے سرحدی ضلع سپین بولدک میں دکانیں، موٹر شوروم اور گودام ہیں یا وہاں کوئی نہ کوئی کاروبار کرتے  تھے۔

’پابندی لگنے سے پہلے  یہ لوگ روزانہ صبح افغانستان جاتے اور شام کو پانچ بجے سرحد بند ہونے سے پہلے واپس پاکستان آجاتے  تھے۔ اسی طرح چمن سرحد پر پاکستانی حکام نے مقامی باشندوں کو باب دوستی دروازے پر چھوٹے پیمانے پر تجارتی سامان کی سمگلنگ کی اجازت دے رکھی تھی۔‘

گذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کے خلاف طاقت کے استعمال کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کی جا رہی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

سامان کی ترسیل کرنے والے ان افراد کو مقامی طور پر ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے سرحد پر آزادانہ طور پر آنے جانے کے لیے صرف پاکستانی شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ درج ہونے کی شرط  تھی۔

اختر گلفام کے مطابق سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد ہونے کی وجہ سے یہ دو طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور کم از کم 10سے 12 ہزار خاندان بے روزگار ہوئے۔

چمن کے چھوٹے تاجروں اور آل تاجر لغڑی اتحاد کے ترجمان صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’سرحدی پابندیوں نے چھوٹے تاجروں اور لغڑیوں کا ذریعہ معاش بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ ہزاروں افراد بے روزگار ہو کر فاقہ کشی پر مجبور ہیں جبکہ کئی نوجوانوں نے تنگ آکر خودکشیاں بھی کی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ روزانہ پانچ سو ہزار روپے کماتے تھے وہ روزانہ آنے جانے کے لیے کس طرح ویزا لے سکتے ہیں۔

’دنیا بھر میں سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کو خصوصی مراعات دی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں مقامی لوگوں اور غریب طبقے پر پڑنے والے منفی اثرات کا ازالہ کیے بغیر سرحدی پابندیاں لگا دی گئی ہیں اور اسے قومی سلامتی کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔‘

صادق اچکزئی نے بتایا کہ ’ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پہلے کی طرح دونوں اطراف کے سرحدی علاقوں کے باشندوں کو شناختی کارڈ اور افغان ’تذکرہ‘ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے ۔ سرحد پر کمپیوٹرائزڈ نظام نصب ہے اس پر پاسپورٹ اور ویزے کی طرح شناختی کارڈ پر سفر کرنے والوں کا مکمل ریکارڈ رکھا جا سکتا ہے۔‘ 

دھرنے کی قیادت کرنے والے امیر محمد کا کہنا ہے کہ سرحدی پابندیوں سے صرف روزگار ہی نہیں سماجی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ لوگ اپنے خاندانوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے لگائی گئی سرحدی باڑ سے سینکڑوں خاندان منقسم ہو گئے ہیں۔ ایک بھائی اس طرف دوسرا بھائی افغان علاقے میں رہ گیا، اسی طرح زمینیں بھی آدھی پاکستان اور آدھی افغانستان میں رہ گئیں۔‘

امیر محمد کے بقول باڑ لگانے کے وقت یہ یقین دلایا گیا تھا کہ رشتہ داروں اور سرحد کے دوسری طرف آنے والی زمینوں تک رسائی میں کوئی دقّت نہیں ہو گی ’لیکن اب انہیں کہا جا رہا ہے کہ سو دو سو میٹر دور اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے یا پھر زمین  پر جانے کے لیے پہلے پاسپورٹ حاصل کریں اور پھر ڈیڑھ سو کلومیٹر دور کوئٹہ جا کر ہر مہینے ویزے لگا کرآیا کریں۔‘

وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط  کا مقصد سمگلنگ اور غیر مجاز تجارت کے ساتھ ساتھ تارکین وطن اور نا پسندیدہ عناصر کی غیر قانونی نقل و حرکت کا تدارک  ہے۔

’نقل و حرکت پر پابندیاں نہ ہونے کی وجہ سے تارکین وطن کی آڑ میں دہشتگرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے تھے۔ تجارت کو فروغ دینے کے لیے سرحدوں پر مارکیٹیں قائم کی جارہی ہیں۔ حکومت متاثرین کو معاوضہ دے رہی ہیں۔‘

محکمہ داخلہ  بلوچستان کے مطابق سرحدی پابندیوں سے متاثر ہونے والے افراد کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فی کس 20 ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جارہا ہے۔ پہلے مرحلے میں 1432 جبکہ دوسرے مرحلے میں 3685 متاثرین کی تصدیق کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس مقصد کے لیے تقریباً ایک ارب روپے فراہم کیے ہیں۔

نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے ون ڈاکیومنٹ رجیم کے اطلاق کے مقصد کو سمگلنگ، غیر مجاز تجارت کا تدارک  قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ چمن سرحد سے سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت سے پاکستان کی معیشت پر سالانہ ستر ارب ڈالر نقصان ہوتا ہے۔

پاکستان اور بلوچستان حکومت کی جانب سے مذاکرات کی متعدد کوششوں کے باوجود یہ دھرنا ختم  نہیں کرایا جا سکا ہے۔

صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار مصالحتی کوششوں میں ناکامی کی وجہ فریقین میں لچک کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ’بظاہر تو یہ شہری حقوق کی تحریک ہے مگر حکومتوں کے درمیان معاملات نے اس مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ طالبان رجیم  پاک افغان سرحد کو تسلیم ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مقامی سے زیادہ بین الاقوامی اور سیاسی  بن گیا ہے ۔ پاکستان کے لیے اس پر سمجھوتہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق دوسری طرف احتجاج پر بیٹھے لوگ لوگ کہتے ہیں کہ ان پابندیوں نے ان کی رشتہ داریاں، کاروبار، روزگار سب کچھ کو متاثر کردیا ہے اور حکومت  اس کا متبادل بھی فراہم نہیں کر سکی ہے۔

ان کے مطابق حکومت کے لیے آٹھ سے دس ہزار لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دینا آسان نہیں اس لیے اقتصادی ترقی کے مواقع پیدا کرکے انہیں روزگار دیا جائے۔

پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی ) نے مارچ 2024  میں چمن دھرنے کے حوالے سے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے  مسئلے کو بات چیت کے ذریعے فوری اور پائیدار حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ قومی سلامتی کے مفادات کے ساتھ مقامی آبادی کی جائز ضروریات میں توازن پیدا کیا جائے اور سمگلنگ اور سکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے اقدامات لیتے ہوئے مقامی لوگوں کی روزمرہ زندگی پر اس کے منفی اثرات کو کم سے کم رکھا جائے۔

کمیشن نے حکومت کو نقل و حرکت کی زیادہ آزادی اور سفر کو آسان  بنانے کے لیے سرحد پر ہی ویزا کی سہولت فراہم کرنے، تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے، پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے  کے لیے سرحد پر مارکیٹیں قائم  کرنے  کی تجویز دی تھی۔

ایچ آر سی پی نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ بلوچستان خصوصاً ضلع چمن میں مقامی صنعتوں میں سرمایہ کاری اور چھوٹے تاجروں کی مدد کرکے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ اقتصادی ترقی کو فروغ ملے اور سرحدی پابندیوں کے معاشی اثرات کو کم کیا جاسکے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.