معدے کی جلن جو عام طور پر سینے میں جلن کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہ بدہضمی کی اہم علامات میں سے ایک ہے اور تیزابیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ہم میں سے اکثر اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر بدہضمی اور اس کی دوسری بہت سی علامات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ معدے کی جلن ہے جو عام طور پر سینے میں جلن کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہ بدہضمی کی اہم علامات میں سے ایک ہے اور تیزابیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں پروفیسر اور رائل لندن ہسپتال میں معدے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر فلپ وڈلینڈ کہتے ہیں کہ 'ریفلیکس (یعنی جزر) اس وقت ہوتا ہے جب پیٹ کے سیال جو کہ تیزابیت والے ہوتے ہیں معدے سے اٹھ کر غذائی نالی (کھانے کی پائپ/گلے) کی طرف جاتے ہیں جہاں عام طور پر تیزابی مواد نہیں ہوتا ہے۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'معدے کی جلن (عرف عام میں سینے کی جلن) شاید تیزابیت والے سیال کے جزر (ابھار) کی سب سے عام علامت ہے، جو سینے کے درمیان ہڈی کے پیچھے جلن کی طرح محسوس ہوتی ہے۔'
کون سی غذائیں سینے کی جلن کا سبب بنتی ہیں؟
وڈلینڈ بتاتے ہیں کہ اس کے ’سب سے زیادہ عام محرکات میں بڑی دعوتیں ہوتی ہیں کیونکہ وہ پیٹ میں دباؤ بڑھاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’زیادہ چکنائی والی غذائیں جزر کے فروغ میں بدتر ہو سکتی ہیں۔ شراب (خاص طور پر سفید شراب) والوولر یا صمامی پٹھوں کو زیادہ سکون فراہم کرنے اور تیزابیت کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق بعض لوگوں کے لیے کیفین اور چاکلیٹ بھی اس جزر کے محرک ہو سکتے ہیں۔
’بعض لوگوں کے لیے مصالحہ دار کھانے مزید خرابی کا باعث ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تیزابیت کے جزر کو ضروری نہیں کہ بدتر بناتے ہیں لیکن مسالہ دار کھانوں میں موجود کیپساسین (قلوی یا جلن پیدا کرنے والا مادہ) ہی تیزاب کی طرح اعصابی رسیپٹرز کو متحرک کرتا ہے۔‘
یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محقق اور رائل برکشائر ہسپتال میں معدے کے ماہر ڈاکٹر جیمز کینیڈی کہتے ہیں کہ فزی ڈرنکس بھی سینے کی جلن کے عام محرک ہیں۔
کینیڈی کا کہنا ہے کہ ’کچھ غذائیں پیٹ کے مواد کے پی ایچ (یعنی پانی کی قوت) کو کم کر دیتے جس سے وہ زیادہ تیزابیت پیدا کر سکتے ہیں۔‘
چاکلیٹ جیسی غذاؤں کے متعلق مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ غذائی نالی اور معدہ کے درمیان کے پٹھوں کو آرام دے سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر پیٹ کے مواد کو زیادہ آسانی سے بہنے کی اجازت دیتے ہیں۔
آپ کو کیسے پتا چلے گا کہ کون سی غذائیں سینے کی جلن کا باعث بنتی ہیں؟
ڈاکٹر کینیڈی کا کہنا ہے کہ مختلف کھانوں کو ہٹاتے جانا جب تک کہ آپ ان کھانوں کو تلاش نہ کر لیں جو مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ خبردار بھی کرتے ہیں کہ ’جب آپ کسی چیز کو اپنے کھانے میں سے ہٹائیں تو ہر ایک کو ایک ساتھ نہ ہٹائیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک وقت میں ایک چیز بند کریں۔ اگر اس چیز کے بند ہونے پر علامات غائب ہو جائیں اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب اسے دوبارہ متعارف کرایا جائے تو علامات واپس آ جائیں تو ممکنہ طور پر وہ (سینے کی جلن کا) ایک محرک ہے۔‘
کیا کچھ غذائیں پیٹ کی تیزابیت کو بہتر بنا سکتی ہیں؟
وڈ لینڈ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے ایسی کوئی مخصوص غذا نہیں جو ریفلیکس کو بہتر کرتی ہو۔‘
لیکن وہ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ’بڑے اور چکنائی والے کھانے سے پرہیز کریں، خاص طور پر سونے کے وقت کے آس پاس جب آپ لیٹ رہے ہوں تو زیادہ نہ کھائیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ معدہ اور غذائی نالی کے درمیان دباؤ کم ہوگا جس سے جزر کم ہو سکتا ہے۔‘
وڈلینڈ اور کینیڈی دونوں کا کہنا ہے کہ غذا کے ذریعے سینے کی جلن کو روکنا خوراک کے کم کرنے کے ذریعے علامات کو روکنے کی کوشش کرنے سے کہیں زیادہ موثر ہے۔ اس کے ساتھ وڈلینڈ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے متعلق ’انٹرنیٹ ایسی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے لیکن ان کی اسناد نہیں ہے۔‘
وڈ لینڈ کہتے ہیں کہ ’جزر بڑھانے والے ٹریگر فوڈز کو کم کرنے کے علاوہ صحت مند غذا کو اپنانے کے دوسرے ثانوی فوائد ہیں جو جزر سے بچا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بحیرہ روم کی خوراک میں سیر شدہ چکنائی کم ہوتی ہے، پودوں سے بھرپور مصنوعات، اور کم الکحل ان میں شامل ہیں۔
’یہ اکثر موٹاپے کم کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور موٹاپا گیسٹرک ریفلیکس کے خطرے کا ایک بڑا عنصر ہے۔ یہ عام طور پر پیٹ کے دباؤ میں اضافہ کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میں غذائی نالی میں تیزاب کے ابھار کو فروغ ملتا ہے۔'
جبکہ کینیڈی کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ’زیادہ تر توجہ ڈائٹ اور ریفلیکس کو کم کرنے پر ہوتی ہے لیکن اس کے بجائے کچھ شواہد ایسے ہیں کہ پھل، سبزیاں، اناج، مچھلی اور مرغیاں اور انڈے بھرپور احتیاط کے ساتھ لی جانے والی غذا علامات کو کم کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر طرز زندگی کے عوامل بھی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔'
کینیڈی کا کہنا ہے کہ ’بحیرہ روم کی خوراک عام طور پر پھل، سبزیوں، پھلیوں، اور کم پروسس شدہ سرخ گوشت پر مشتمل ہوتی ہے، اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس کا تعلق گیس اور جزر والی بیماریوں سے کم ہے۔‘
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سینے کی جلن کی بات آتی ہے تو جڑی بوٹیوں سے ہاضمے کا علاج مناسب نہیں ہوسکتا ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’پودینے کی چائے یا پودینے کا تیل اس معاملے میں دلچسپ ہے کیونکہ یہ معدے کی علامات جیسے پیٹ میں درد، اپھارہ اور پیٹ پھولنے میں بہت مفید کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ آنتوں کی دیواروں کے ہموار پٹھوں کو سکون فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔‘
اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں ’پودینے کے اس اثر کا مطلب یہ ہے کہ یہ معدے کے جوڑ پر ان عضلات کو بھی آرام دیں گے جو نظریاتی طور پر زیادہ تیزاب کو اوپر کی طرف جانے اور علامات کو خراب کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘
کیا کچھ لوگوں میں سینے کی جلن کا زیادہ امکان ہوتا ہے؟
وڈ لینڈ کہتے ہیں کہ 'موٹاپے کی طرح حاملہ ہونے کے دوران بھی ایسڈ ریفلیکس بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ پیٹ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے، بچے کی پیدائش کے بعد اس میں بہتری آتی ہے۔
’ایسڈ ریفلیکس عمر کے ساتھ قدرے عام ہوتا جاتا ہے، لیکن اس ڈرامائی اثر نہیں ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ آپ میں ہائیٹل ہرنیا (حجاب حاجز کا ہرنیا) پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ یقینی طور پر ریفلیکس کو بڑھاتا ہے۔ اس کی وجہ سے پیٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ڈایافرام کے ذریعے سینے کی جانب کھسک جاتا ہے۔ اور یہ ڈرامائی طور پر غذائی نالی میں ریفلیکس کے خلاف مدافعت کو کم کرتا ہے۔‘
کینیڈی خبردار کرتے ہیں کہ نئی علامات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق ’55 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونے والی جزر کی نئی علامات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے کیونکہ وہ کسی اور سنگین چیز کی وجہ سے ہوسکتے ہیں۔‘
بہر حال وڈ لینڈ وضاحت کرتے ہیں کہ بہت سے لوگوں میں ریفلیکس کی کبھی کبھار علامات عام ہیں اور یہ خطرے کی گھنٹی یا وسیع پیمانے پر زندگی کی تبدیلیوں کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کا معیار زندگی پر زیادہ اثر ہونے لگے تو مزید اقدامات کی ضرورت پیش آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزن کم کرنے کی کوشش کی جائے اور سگریٹ نوشی کو روکا جائے۔ ٹرگر فوڈ اور مشروبات (خاص طور پر شراب) کو اعتدال میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ زیادہ چکنائی والے کھانے سے پرہیز کریں، خاص طور پر سونے کے وقت کے قریب، اور اگر ممکن ہو تو رات کے کھانے اور سونے کے وقت کے درمیان تین سے چار گھنٹے کا وقفہ رکھنے کی کوشش کریں۔'
یہ مضمون طبی نسخہ نہیں ہے۔ اگر آپ ان علامات کے متعلق فکرمند ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔