چھانگا مانگا جنگل اور نظام لوہار و ملنگی ڈاکو کی کہانی

image

جس طرح انڈیا میں راجستھان، اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی ریاستوں کا علاقہ چمبل اپنے زمانے کے معروف ڈاکوؤں کی پناہ گاہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اسی طرح لاہور کے پاس قصور کا چھانگا مانگا جنگل آزادی سے قبل اور بعد میں بھی ڈاکوؤں کی پناہ گاہ رہا ہے۔

ہم نے چمبل کے بارے میں پہلے بات کر رکھی ہے آج ہم چھانگا مانگا کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس جنگل کا نام چھانگا مانگا اس لیے پڑا کہ راج برطانیہ کے دوران دو خوفناک مجرم چھانگا مانگا جیل سے فرار ہو کر قصور کے پاس اس جنگل میں روپوش ہو گئے اور یہ جنگل اپنے گھنے پن کی وجہ سے ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گیا۔

گذشتہ سال انڈیا نے آزادی کی 75 ویں سالگرہ پر ’آزادی کا امرت مہتوسو‘ یعنی جشن کے طور پر منایا اور اس دوران مجاہدین آزادی کو یاد کیا جس میں ایک نام نظام لوہار کا تھا۔

نظام لوہار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سکھوں کے دور حکومت میں ترن تران صاحب میں پیدا ہوا تھا، لیکن پھر وہ علاقہ انگریزوں کے زیر تسلط آگیا۔ اگرچہ نظام لوہار کو بچپن سے ہی انگریز پسند نہیں تھے، لیکن آہن گری کے آبائی پیشے کی وجہ سے وہ ان کے لیے تلوار وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ ایک دن ایک انگریز سے ان کی تو تو میں میں ہو گئی اور انگریزوں نے جب ہندوستانیوں کے خلاف اپنی حقارت ظاہر کی تو ان سے رہا نہ گیا اور دونوں دست و گریباں ہو گئے جس میں انگریز افسر کی جان چلی گئی۔

1857 کے ناکام انقلاب کے بعد اگرچہ بڑے پیمانے پر انقلابی سرگرمیاں دم توڑ چکی تھیں لیکن اس علاقے میں بہت سے لوگ انگریزوں کے خلاف سرگرم تھے اور انھیں اور ان کے حمایت یافتہ ہندوستانیوں کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اس وقت پنجاب میں کئی سکھ گروپ انگریزوں کے خلاف سرگرم تھے۔

آزادی کے امرت مہوتسو کی ویب سائٹ پر نظام لوہار کے بارے میں لکھا گیا کہ وہ ایک وطن پرست جنگجو تھا جسے برطانوی حکومت نے ڈاکو قرار دیا تھا۔

اس کے مطابق ’نظام لوہار نے نوآبادیاتی حکومت کے خلاف بغاوت کی جس کی وجہ سے کافی خونریزی ہوئی۔ انہوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ پنجاب میں حکومت کے جابرانہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے حکام کے جبر کے خلاف جدوجہد کی۔ امیر لوگ اور سرکاری افسران ان کے ہاتھوں لٹے تھے۔ آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اس نے خود کو ایک قوم پرست آزادی پسند کے طور پر دیکھا، لیکن نوآبادیاتی حکومت نے اسے ڈاکو قرار دیا۔‘

پاکستانی ہدایتکار جمیل اختر نے ’نظام لوہار‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی (فوٹو: پاک میگزین)’نظام لوہار سمیت برطانوی سامراجی توسیع کی وجہ سے بہت سے مقامی لوگوں میں اس حکومت کے خلاف نفرت اور مخالفت پیدا ہوئی۔ 1868 میں نظام کی ایک برطانوی اہلکار کے ساتھ گرما گرم بحث ہوئی اور اس افسر کی طرف سے ہندوستان کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ سے انہوں اپنی سخت توہین محسوس کی، نتیجے کے طور پر انہوں نے افسر کو مار ڈالا اور جیت سنگھ اور ملکیت سنگھ کے گروہ میں شامل ہو گئے، جو دونوں ممتاز ’ببر اکالی‘ کے حامی تھے۔‘

نظام لوہار نے اب ببر اکالی کے لیے ہتھیار بنانے شروع کر دیے۔ اس دوران وہ انگریزوں اور انگریز نواز ہندوستانیوں کو نشانہ بناتے اور ان کا مال متاع لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں ہندوستان کا ’رابن ہڈ‘ بھی کہا گیا۔

تحریک آزادی کے باغیوں کے ساتھ مل جانے، ان کی حمایت کرنے اور انگریزوں کی مخالفت کرنے کی وجہ سے برطانوی پولیس نے ان کی کڑی نگرانی شروع کر دی۔ اس نگرانی کی وجہ سے لوہار اکثر اپنے گھر سے باہر راتیں بسر کرتا تھا اور بعض اوقات چھانگا مانگا کے جنگل کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر کے حکام سے بچ جاتا تھا۔

وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے اپنے طریقہ کار کے لیے جانا جاتا ہے۔ 1877 میں ایک دن پولیس نے نظام کے گھر کو اس کے ایک دوست سوجا کی اطلاع پر گھیر لیا جس کے بعد پولیس اور نظام کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا لیکن اس میں نظام کی موت ہو گئی۔

پاکستانی ہدایتکار جمیل اختر نے ’نظام لوہار‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی جو کہ سنہ 1966 میں ریلیز ہوئی تھی۔

نظام ہی کی طرح ان سے قبل ملنگی نام کا ایک ڈاکو تھا جس کے بارے میں لوک گیت بھی مشہور تھے۔ جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں ’راتی راج ملنگی دن نوں راج فرنگی‘ جیسی باتیں مشہور تھیں یعنی اگر دن میں انگریزوں کا راج ہے تو رات میں ملنگی کا راج ہے۔

ملنگی کا تعلق چھانگا مانگا کے جنگل کے قریب لاکھو نامی ایک گاؤں سے تھا اور وہ بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا جس کا فائدہ اٹھا کر وہاں کے جاگیرداروں نے اس کی زمین ہڑپ لی تھی۔ شادی کے بعد ملنگی اور اس کے بھائی نے اپنا حق لینے کی قسم کھائی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئے لیکن مسلم خاتون سے شادی کی وجہ سے ملنگی کا سماجی بائیکاٹ کر دیا گیا اور انھیں اس گاؤں سے نکلنا پڑا۔ یہ جاگيردار انگریزوں کے نمبردار بھی تھے۔ اس لیے ملنگی کی جدوجہد ان کے خلاف شروع ہو کر بالآخر انگریزوں کے خلاف ہو گئی۔

آج چھانگا مانگا کا جنگل نیشنل پارک میں تبدیل ہو چکا ہے اور لاہور کے آس پاس کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے (فوٹو: آن لائن)ملنگی بھی امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں اس دولت کو تقسیم کرنے کے لیے جانا گیا اور اس نے بھی ببر اکالی تحریک کی حمایت کی۔

بہر حال تقسیم سے پہلے اور بعد کے برسوں تک یہ خطہ ڈاکوؤں کے لیے جانا جاتا رہا۔ سکرول کی ایک سٹوری کے مطابق پنجاب کے الحاق کے فوراً بعد انگریزوں کی طرف سے جمع کیے گئے زمین کے لگان کے ریکارڈ کے مطابق چھانگا مانگا کے جنگل کا نام دو اسی نام کے دو ڈاکوؤں کے نام پر نکلا جو برطانوی قید سے فرار ہو کر اس گھنے جنگل میں غائب ہو گئے۔

وہ دونوں راتوں کو نکلتے اور مسافروں کو لوٹتے مگر پھر دونوں آخرکار پولیس مقابلے میں مارے گئے، لیکن لوک کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے بھوت اس جنگل میں رہتے ہیں۔ آج چھانگا مانگا کا جنگل نیشنل پارک میں تبدیل ہو چکا ہے اور لاہور کے آس پاس کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.