فینٹینل: منشیات کی دنیا میں ’وائٹ‘ کہلائی جانے والی درد کش دوا پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی پہنچ سے دور کیوں؟

یہ دوا یوں تو شدید درد اور تکلیف میں مبتلا مریضوں خاص کر کینسر کے مریضوں اور سرجری کروانے والوں کے لیے درد کش دوا ہے لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران فینٹینل کی پیداوار میں آسانی کے باعث اب یہ اتنا مہلک ڈرگ بن چکا ہے کہ امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق گذشتہ برس فینٹینل اوورڈوز کے باعث ملک میں کم سے کم ایک لاکھ 12 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
fentanyl
Getty Images

کچھ عرصہ قبل لاہور میں ڈاکٹر امجد چوہدری کے کلینک پر ایک ایسا مریض آیا جسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔

اسے فوری طور پر وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور پھر اس کی بحالی کے لیے مختلف انجیکشنز لگائے گئے۔ ڈاکٹر امجد اچانک سانس رُکنے اور دیکھتے ہی دیکھتے بے ہوش ہو جانے کی علامات اور ٹیسٹس کے بعد یہ جان چکے تھے کہ یہ سنتھیٹک اوپیوئڈ یعنی ’فینٹینل‘ کے اوور ڈوز کے باعث ہوا ہے۔

ان کے مطابق بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص اپنے ساتھ یہ مہلک ڈرگ بیرونِ ملک سے لائے تھے۔ وہ اس کے عادی ہو چکے تھے۔

ڈاکٹر امجد گذشتہ تین دہائیوں سے لاہور میں بطور ایڈکشن سائیکیٹرسٹ کام کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فینٹینل کے لیے نشے کی دنیا میں ’وائٹ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اب اسے کہیں کوکین کے متبادل کے طور پر اور کہیں اس کے ساتھ ملا کر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ’میرے اور آپ کے لیے شاید اس کا حصول مشکل ہو کیونکہ حکومت کی جانب سے اس حوالے قوانین سخت ہیں۔ لیکن ایک عادی شخص کے لیے شاید یہ دس منٹ کی بات ہے۔‘

بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ تحقیق نہیں کر سکا لیکن پاکستان کے مختلف سائیکیٹرسٹ سے بات کرنے پر یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ پاکستان بھر میں فینٹینل کے عادی افرادکم تعداد میں صحیح لیکن موجود ضرور ہیں۔

یہ دوا یوں تو شدید درد اور تکلیف میں مبتلا مریضوں خاص کر کینسر کے مریضوں اور سرجری کروانے والوں کے لیے درد کش دوا ہے لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران فینٹینل کی پیداوار میں آسانی کے باعث اب یہ اتنا مہلک نشہ بن چکا ہے کہ امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق گذشتہ برس فینٹینل اوور ڈوز کے باعث ملک میں کم سے کم ایک لاکھ 12 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

پاکستان میں فینٹینل کے استعمال کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اقوامِ متحدہ کے منشیات اور جرائم کے ادارے (یو این او ڈی سی) کی جانب سے کیا گیا سروے سنہ 2013 میں شائع ہوا تھا جبکہ اس کی تازہ ترین رپورٹ اس سال شائع ہو گی۔

سنہ 2013 کے اس سروے کے مطابق پاکستان ان ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہے جہاں اوپیوئڈز اور اوپی ایٹس کے عادی افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

افیون کے پھول اور اس پودے کے فائبرز سے قدرتی طور پر تیار ہونے والے کمپاؤنڈ اوپی ایٹس کہلاتے ہیں جن میں مورفین، کوڈین اوپیئم شامل ہیں۔ اوپیوئڈز ہر اس کمپاؤنڈ کو کہتے ہیں جو آپ کے جسم میں موجود اوپیوئڈ ریسیپٹرز کو ٹارگٹ کریں۔ ان میں اوپی ایٹس کے ساتھ ساتھ سیمی سنتھیٹک (ہیروئن وغیرہ) اور سنتھیٹک اوپیوئڈز (فینٹنل وغیرہ) شامل ہوتے ہیں جنھیں لیباٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 42 لاکھ سے زیادہ افراد ایسے ڈرگز پر منحصر ہیں جبکہ 16 لاکھ افراد ڈاکٹروں کی جانب سے تجویز کی گئی ادویات کو غلط استعمال کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے وزارتِ نارکاٹس کنٹرول اور اینٹی نارکاٹس فورس سے فینٹینائل سے متعلق تفصیلات جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

جہاں فینٹینل نے دنیا بھر میں اوورڈوز کے باعث تہلکہ مچایا ہوا ہے وہیں پاکستان میں اس کے حوالے سے مختلف سخت قوانین نافذ کیے گئے جس کے باعث ایسے مریض جنھیں واقعی میں اس کی ضرورت انھیں بھی یہ شاذونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔

fentanyl
Getty Images

پاکستان میں فینٹینل کے طبی استعمال میں رکاوٹیں کیوں ہیں؟

پاکستان میں فینٹینل کے طبی استعمال میں حکومت کی جانب سے مصلحتاً رکاوٹیں حائل کی گئی ہیں تاکہ اس کے غلط استعمال سے بچا جا سکے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی ویب سائٹ پر درج معلومات اور اس حوالے سے تفصیلات بتانے والے چند ڈاکٹرز کے مطابق نہ صرف ہسپتالوں کو اس کا اجرا ایک کڑے نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے بلکہ اسے درآمد کرنے والی کمپنیوں کو بھی اس حوالے سے متعدد مراحل سے گزرنے کے بعدایک مخصوص مقدار درآمد کرنے دی جاتی ہے۔

ڈریپ سے رابطہ کرنے پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم ڈریپ کے ساتھ کام کرنے والے ایک ریگولیٹری کنسلٹنٹ ندیم حسین عالمگیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صرف رجسٹرڈ کمپنیوں کے لیے مخصوص کوٹا ہوتا اور اس کے اندر رہتے ہوئے وہ درآمد کرنے کے لیے ڈریپ کو ایک ایک درخواست دیتے ہیں جس میں وہ اس دوا کی طلب بھی واضح کرتے ہیں۔

’سال کے شروع میں درخواست دی جاتی ہے اور پھر وزارتِ نارکاٹکس کنٹرول کی جان سے ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جس میں اے این ایف اور ڈریپ کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے فینٹینل اور دیگر کنٹرولڈ ڈرگز کی درآمد کی اجازت دی جاتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح ان کنٹرولڈ ادویات کی ایلوکیشن یا اجرا کے حوالے سے بھی ڈریپ میں کنٹرولڈ ڈرگ ڈویژن موجود ہے اور ہسپتالوں کو اس کی فراہمی بھی ان کی طلب کے مطابق کی جاتی ہے۔

لاہور کے ایور کیئر ہسپتال میں کنسلٹنٹ اینیستھیزیا اینڈ پین میڈیسن ڈاکٹر عتیق الرحمان غفور اس حوالے سے تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں فینٹینل کا اجرا خاصا پیچیدہ عمل ہے۔ ہسپتال کو تین وزارتوں، صوبے میں صحت کے حکام، اینٹی نارکاٹکس اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) سے اجازت لینی پڑتی ہے۔

اسلام آباد کے شفا ہسپتال سے منسلک آنکولجسٹ ڈاکٹر آصف مسعود گذشتہ 12 سال سے کینسر کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کے سخت قوانین کے باعث یہاں فینٹینل پیچز اور مورفین آسانی سے دستیاب ہی نہیں ہوتی، یا جب آتی ہے تو صرف دو، تین ماہ کے اندر ختم ہو جاتی ہے جس کے باعث مریضوں کو جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو انھیں بدقسمتی سے یہ نہیں دی جا سکتی ہے۔‘

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’المیہ یہ ہے کہ ایک طرف جن مریضوں کو واقعی ضرورت ہے ان کے لیے دستیاب نہیں لیکن آپ باہر، کہیں سے بھی کسی بھی شہر سے آرام سے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے۔‘

fentanyl
Getty Images

اگر یہ دوا پاکستان میں نہیں بنتی اور اسے بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اور ملک میں اس کی فروخت کے کڑے قوانین ہیں تو پھر یہ منشیات کے طور پر کیوں دستیاب ہے۔

امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سنہ 2022 کی انٹرنیشنل نارکاٹکس کنٹرول سٹریٹجی کے مطابق پاکستان ان 22 ممالک میں شامل ہے جو یا تو منشیات کی غیر قانونی تجارت کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا پھر یہاں ممنوعہ منشیات کے مخصوص اجزا پائے جاتے ہیں۔

سنہ 2022 کی رپورٹ کے مطابق ’پاکستانی ایجنسیوں کی جانب سے سنتھیٹک فینٹینل پکڑے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔‘ بی بی سی کی جانب سے اے این ایف سے یہ اس بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے سوال کیا گیا تاہم تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔

ڈریپ کی ویب سائٹ پر درج ایس او پیز کے مطابق پہلی مرتبہ کسی بھی ہسپتال کو اس کا اجرا صرف سات گرام کیا جاتا ہے، جسے کسی ہنگامی ضرورت کے پیشِ نظر بڑھایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر آصف اور ڈاکٹر عتیق کی بات کی توثیق کینیڈین جرنل فار اینیستھیزیا میں سنہ 2021 میں شائع ہونے والے ایک سروے سے ہوتی ہے۔ یہ سروے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی کی ڈاکٹر فوزیہ انیس خان اور ڈاکٹر مہرین ملک نےکیا تھا جس میں پاکستان بھر سے 246 ڈاکٹروں کی جانب سے سوالوں کے جواب دیے گئے تھے۔

اس سروے سے معلوم ہوا کہ 63 فیصد ڈاکٹروں نے فینٹینل کی قلت جبکہ 57 فیصد ڈاکٹروں نے مورفین کی قلت رپورٹ کی تھی۔

سروے کے مطابق پاکستان میں اس کمی کے باعث مریضوں کو سرجری کے دوران نیلبوفین یا ٹریماڈول دی جاتی ہے اور عموماً خواتین کو سی سیکشن سرجری کے دوران بھی یہی انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔

نیلبوفین اور ٹریماڈول دونوں ہی اوپیوئڈ ادویات ہیں اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد میں موجود متعدد ذہنی امراض کے ڈاکٹروں کے مطابق اکثر افراد ان ادویات کے بھی عادی ہو جاتے ہیں جس کے بعد ان سے چھٹکارا حاصل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔

ڈریپ کے ریگولیٹری کنسلٹنٹ ندیم حسین کہتے ہیں کہ عموماً ان کی قلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کڑے قوانین کے باعث کمپنیاں ان کی زیادہ مقدار درآمد نہیں کر سکتیں اور کیونکہ اس کی طلب زیادہ نہیں ہے اور ان ادویات کی قیمیتیں کنٹرولڈ ہوتی ہیں اس لیے کمپنیوں کو اس میں زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا۔‘

امریکہ
Getty Images

فینیٹینل کیا ہے اور یہ انسانی جسم پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟

پہلی بار سنہ 1959 میں تیار کردہ اور 1960 کی دہائی میں نس کے ذریعے درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی فینٹینیل کو اپنی مختلف شکلوں (گولیاں، پیچ، انجیکشن وغیرہ) میں ایک بے ہوشی کی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور سرجری یا پیچیدہ صحت کی حالت کی وجہ سے ہونے والے شدید اور پرانے درد کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

لاہور میں ایک طویل عرصے سے کام کرنے والے ایڈکشن سپیشلسٹ اور ولنگ ویز کے سی ای او ڈاکٹرصداقت علی کے مطابق اوپیوئڈز افیون کے پھول یعنی پوپی سے نکالے گئے سنتھیٹک اجزا اور نیچرل طریقے دونوں طرح سے تیار ہوتے ہیں۔ ان میں ہیروئن، مورفین، کوڈین، اور سنتھیٹک اوپیوئڈز جیسے فینٹینل شامل ہیں۔

ہیروئن یا مورفین جیسی دیگر اوپیئڈز کی طرح فینٹینیل دماغ کے ان حصوں میں پائے جانے والے ’اوپیئڈ ریسیپٹرز‘ کے ساتھ جا کر ایسے ملتا ہے جو درد اور جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صداقت علی کے مطابق ’اوپیوئڈز دماغ میں موجود اوپیوئڈ ریسیپٹرز کے ساتھ خود کو ایسے جوڑتے ہیں کہ درد کا احساس کم ہو جاتا ہے اور خوشی اور سکون کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔‘

اوپیئڈز کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ مادہ دماغ میں کتنی جلدی داخل ہوتا ہے اور کتنی جلدی ایسا کرتا ہے۔

چونکہ یہ چھوٹی مقدار میں ایک انتہائی طاقتور دوا ہے، اس لیے اسے دماغ تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور فینٹینیل اس عمل میں مزید تیزی کا سبب بنتی ہے۔

ایک بار جب فینٹینیل دماغ میں داخل ہوتی ہے تو یہ اوپیئڈ ریسیپٹرز کے ساتھ تعامل کرتی ہے، ڈوپامائن کے اخراج میں سہولت فراہم کرتی ہے، درد کے احساس کو ختم کرتی ہے، مریض کی حالت میں بہتری اور سکون کا احساس دیتی ہے اور اضطراب کو کم کرتی ہے۔

جب لوگ اسے پہلی بار استعمال کرتے ہیں تو انھیں عمدگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اسے دوبارہ لیتے ہیں تو وہ کبھی بھی وہ سکون حاصل نہیں کرتے جو انھوں نے پہلی بار حاصل کیا تھا اور اس طرح انھیں اس کی عادت ہو جاتی ہے۔

tramadol
Getty Images

لوگ اِن نشہ آور ادویات کے عادی کیوں ہوتے ہیں؟

لاہور ہی کے ایک اور معروف ایڈیکشن سائیکیٹرسٹ پروفیسر عمران اعجاز حیدر پاکستان اور لندن میں ایک عرصے سے پریکٹس کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’فینٹینل کی اوورڈوز یا اس کے عادی اکا دکا افراد ہی آتے ہیں اور اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پاکستان میں کتنے لوگ فینٹینل کے عادی ہیں۔ یہاں زیادہ تر آئس، چرس، ہیروئن اور کوکین کے عادی افراد آتے ہیں۔

’اس کے علاوہ سرجری کے دوران دیے جانے والے کچھ مخصوص درد کش انجیکشنز ہیں جن کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں۔‘

یہ ایک انتہائی حیران کن بات محسوس ہوتی ہے کہ کچھ لوگ کسی اوپیوئڈ کے عادی ہو سکتے ہیں اور کچھ کو ان کی عادت نہیں ہوتی اور یہ ضروری نہیں ہے کہ عادی ہونے والا مریض دانستہ طور پر ہی اس کی عادت ڈال لے بلکہ اس کا دارومدار کسی بھی شخص کی جینز،اس کی نفسیات اور میٹابولک ایرر شامل ہیں۔

پروفیسر عمران اعجاز کے مطابق ’یہ ہر شخص کی ذہنی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے مسائل سے دور بھاگتے ہیں اور عموماً جب انھیں پہلی دفعہ ایسی نشہ آور دوا ملے تو انھیں مزا آتا ہے، اور پھر انھیں اس کی مزید طلب ہوتی ہے اور یوں وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔

’ہر شخص کو اس حوالے سے اپنے بارے میں علم ہوتا ہے کہ آیا وہ آسانی سے کسی بھی چیز کے عادی ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس لیے یہ اوپیوئڈز کے طبی استعمال سے پہلے ڈاکٹروں کو بھی مریض کو بتانا چاہیے اور انھیں اس حوالے سے خود بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔‘

ایڈکشن سپیشلسٹ ڈاکٹر صداقت علی کے مطابق ’اس حوالے سے ایک اہم چیز میٹابولک ایرر بھی ہوتی ہے جو عادی ہونے والے لگ بھگ 20 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک جینیاتی تبدیلی ہوتی ہے جو کسی بھی شخص کا کسی نشہ آور چیز سے متعلق ردِعمل تبدیل کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔‘

سنہ 2015 میں اے این ایف کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نارکاٹکس کنٹرول کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر روز 700 افراد مختلف ادویات اور منشیات کے اوور ڈوز کے باعث ہلاک ہوتے ہیں جبکہ اقوامِ متحدہ کی سنہ 2019 کی ڈرگ رپورٹ میں شائع ممالک کی فہرست کے مطابق کے مطابق منشیات پکڑنے کی مقدار کے اعتبار سے پاکستان افیون پکڑنے میں دوسرے، مورفین پکڑنے میں تیسرے اور ہیروئن پکڑنے میں بھی تیسرے نمبر پر ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.