دبئی کی پراپرٹی پاکستانی اور جنوبی ایشیائی شخصیات کے لیے سرمایہ کاری کی جنت کیوں ہے؟

عالمی صحافتی تنظیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ کی جانب سے ’دبئی ان لاکڈ‘ کے نام سے جاری ہونے والی تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دبئی کی 23 ہزار رہائشی پراپرٹیز کی ملکیت 17 ہزار پاکستانی شہریوں کے پاس ہے۔ اس رپورٹ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ دبئی پاکستانیوں سمیت غیر ملکی افراد کے لیے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی جنت کیسے بنا اور اس شہر میں پراپرٹی خریدنا کسی بھی عام فرد کے لیے کتنا آسان ہے؟
تصویر
Getty Images

پاکستان سمیت دنیا بھر میں گذشتہ دن سے عالمی صحافتی تنظیم ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ کی جانب سے ’دبئی ان لاکڈ‘ کے عنوان سے ہونے والی تحقیقات کا چرچہ ہو رہا ہے جس میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے کئی نام اور اُن سے جڑے حقائق سامنے آئے ہیں۔

دنیا کے 70 سے زیادہ صحافتی اداروں اور صحافیوں کے تعاون سے تشکیل پانے والی ’دبئی ان لاکڈ‘ کے نام سے جاری اس تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ’ایسے افراد کے نام سامنے لائے گئے ہیں جو دبئی میں ہزاروں کی تعداد میں پراپرٹی اور ریئل سٹیٹ کے مالک ہیں جن میں مبینہ مجرمان اور سیاست دان شامل ہیں۔‘

تاہم واضح رہے کہ یہ تحقیقات اس بات کا اظہار ہرگز نہیں کرتیں کہ دبئی میں خریدی گئی پراپرٹی غیرقانونی ذرائع یا غیرقانونی طریقے سے خریدی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینیئر سیاسی و عسکری حکام کے نام ’مفاد عامہ‘ میں سامنے لائے گئے ہیں۔

تاہم اس رپورٹ کے ذریعے جہاں کئی نام منظرِ عام پر لائے گئے ہیں، وہیں کئی سوالات نے بھی جنم لیا ہے جن میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ دبئی پاکستانیوں سمیت غیر ملکی افراد کے لیے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی جنت کیسے بنا؟ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ دبئی جیسے مقام پر پراپرٹی خریدنا کتنا آسان ہے اور اس ضمن میں رائج قوانین کیا کہتے ہیں؟

ان سوالات کے جواب جاننے سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ ’دبئی ان لاکڈ‘ ہے کیا؟

’دبئی ان لاکڈ‘ تحقیقات کیا ہیں؟

دبئی ان لاکڈ نامی بین الاقوامی تحقیقات میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ریئل سٹیٹ شعبے کے غیر ملکی مالکان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ چھ ماہ تک جاری رہنے والی ان تحقیقات کی قیادت آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) نے کی جس میں دنیا بھر سے میڈیا کے 70 سے زیادہ اداروں کے صحافیوں نے حصہ لیا۔

او سی سی آر پی کے مطابق ان تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ’مشرق وسطیٰ کے مالیاتی مرکز میں کون کس پراپرٹی کا اصل مالک ہے اور کیسے اس شہر نے دنیا بھر کے ان افراد کے لیے بھی اپنے دروازے کھولے جن پر مختلف الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔‘

او سی سی آر پی کی ویب سائٹ پر جاری معلومات کے مطابق ’یہ معلومات اس لیک ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے مرتب کی گئی ہیں جو دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ اور متعدد دیگر سرکاری کمپنیوں سے ملا اور یہ 2020 سے 2022 کی مدت کا ریکارڈ تھا۔‘

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا سب سے پہلے واشنگٹن ڈی سی میں موجود سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفینس سٹڈیز نامی غیر سرکاری تنظیم نے حاصل کیا جو بعد میں او سی سی آر پی کو فراہم کیا گیا۔

او سی سی آر پی کے مطابق دبئی کی ہاؤسنگ مارکیٹ میں مجموعی طور پر غیر ملکی افراد 160 ارب ڈالر مالیت کی پراپرٹی رکھتے ہیں اور اس تحقیقاتی رپورٹ میں او سی سی آر پی کے میڈیا پارٹنر اور پاکستانی اخبار روزنامہ ڈان کی ایک تحریر کے مطابق 2022 کے لیک شدہ ڈیٹا کے مطابق ’دبئی کی 23 ہزار رہائشی پراپرٹیز کی ملکیت 17 ہزار پاکستانی شہریوں کے پاس ہے۔‘ یوں پاکستانی شہریت کے حامل افراد اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 35 ہزار پراپرٹیز کے 29700 مالکان کے ساتھ انڈین شہری پہلے نمبر پر ہیں۔ او سی سی آر پی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی شہریوں کے پاس 22 ہزار جبکہ سعودی شہریوں کے پاس 16 ہزار پراپرٹیز ہیں۔

تاہم او سی سی آر پی کے مطابق تحقیقات میں صرف 200 ایسے افراد پر توجہ دی گئی جن کا یا تو مجرمانہ ریکارڈ تھا یا وہ سیاسی شخصیات تھیں یا پھر ایسے افراد جن پر کسی قسم کی عالمی پابندیاں عائد تھیں۔ رپورٹ کے مطابق دیگر صحافیوں نے صرف ایسے افراد کی شناخت ظاہر کی جن کی شناخت ظاہر کرنا عوامی مفاد میں تھا اور بہت سے مالکان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

دبئی ان لاکڈ میں شامل چند پاکستانی سیاستدانوں کا کیا کہنا ہے؟

واضح رہے کہ او سی سی آر پی کے پاکستان میں ایک میڈیا پارٹنر دی نیوز انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پاکستان سے اس فہرست میں سیاست دانوں کے علاوہ ’ایک درجن سے زیادہ ریٹائرڈ فوجی افسران، ان کے خاندان، بینکر اور بیوروکریٹ‘ بھی شامل ہیں۔ بی بی سی ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتا۔

تاہم پاکستان کی چند سیاسی شخصیات، جن کا نام اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے، کی جانب سے اس رپورٹ پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے دبئی میں ایک اپارٹمنٹ کی ملکیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اس پراپرٹی کو ’پاکستان کی تمام ریگولیٹری اتھارٹیز بشمول ایف بی آر، الیکشن کمیشن آف پاکستان وغیرہ کے ساتھ گذشتہ چھ سالوں سے رجسٹرڈ اور ڈکلیئر‘ کیا ہوا ہے اور ’اس کی تصدیق ایف بی آر سے بھی کی جا سکتی ہے، میں نے 2018 کے نامزدگی فارموں میں بھی اس کا اعلان کیا تھا۔‘

دبئی ان لاکڈ میں پاکستان کے وزیر داخلہ اور سینیٹر محسن نقوی کا نام بھی شامل ہے جن کا کہنا ہے کہ ’2017 میں میری اہلیہ کے نام پر خریدی گئی دبئی پراپرٹی ٹیکس ریٹرن میں مکمل طور پر ظاہر اور درج ہے اور بطور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب، الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں میں بھی اسے ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ پراپرٹی ایک سال پہلے فروخت کی گئی تھی اور حال ہی میں اس رقم سے ایک نئی پراپرٹی خریدی گئی ہے۔‘

سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کا بھی کچھ ایسا ہی موقف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے اثاثے پاکستان میں ٹیکس حکام اور الیکشن کمیشن کے سامنے پہلے سے ظاہر شدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ہر سال اثاثوں اور جائیداد کی ڈکلیئریشن میں یہ تفصیلات جمع کراتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، پہلے سے سب کچھ عوام کے علم میں ہے۔‘

تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس سابقہ ٹوئٹر پر تحریک انصاف کے سابق رہنما شفقت محمود نے سوال اٹھایا کہ ’دبئی میں پراپرٹی رکھنے والے جن افراد کا نام سامنے آیا وہ کہتے ہیں کہ یہ ڈکلیئر شدہ ہے لیکن اصل معاملہ ایف بی آر میں یہ پراپرٹی ڈیکلیئر کرنے یا ٹیکس کی ادائیگی کا نہیں بلکہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پراپرٹی خریدنے کے لیے یہ پیسہ کہاں سے آیا اور دبئی ٹرانسفر کیسے ہوا؟‘

https://twitter.com/Shafqat_Mahmood/status/1790603401568375123

پاکستان کے سوشل میڈیا پر بہت سے افراد نے ایسے ہی سوالات اٹھائے ہیں تاہم پہلے یہ جانتے ہیں کہ دبئی میں ایسی کیا بات ہے کہ بہت سے پاکستانی، انڈین اور افغان شہریوں نے وہاں سرمایہ کاری کی؟

دبئی پاکستانی اور جنوبی ایشیائی شخصیات کے لیے سرمایہ کاری کا پُرکشش مقام کیوں ہے؟

دبئی ان لاکڈ میں پاکستان سمیت انڈیا، افغانستان اور ایران تک کی شخصیات کے نام موجود ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری اتنی پرکشش کیوں ہے؟

پاکستان اور بیرونِ ملک ریئل سٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کے ساتھ کام کرنے والی ایک کمپنی ایجنسی 21 کے ڈائریکٹر شرجیل احمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دبئی بہت سی وجوہات کی بنا پر ایک پرکشش منزل ہے جن میں سے اول معاشی استحکام ہے۔ دبئی اپنی مضبوط اور مستحکم معیشت کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور اسی لیے سرمایہ کار یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔‘

تاہم یہ واحد وجہ نہیں۔ شرجیل کا کہنا ہے کہ ’دبئی میں پراپرٹی خریدنے والوں کو ٹیکس فری ماحول فراہم کیا گیا ہے جو اسے ایک پرکشش موقع بناتا ہے کیوں کہ دبئی میں پراپرٹی کے کرائے بھی کافی زیادہ ہیں اور سرمایہ کار کو ایک اچھا منافع ملتا رہتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دبئی میں پراپرٹی خریدنے والوں کو سرمایہ کاری کے ذریعے مخصوص ریزیڈنسی ویزا حاصل کرنے کی پیشکش بھی کی جاتی ہے جو جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو دبئی منتقل ہونے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہے۔‘

دبئی
Getty Images

شرجیل کے مطابق ’دبئی ایک اہم کاروباری اور سفری مرکز بھی بن چکا ہے جہاں ترقی کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کی مانگ اور کرائے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ یہاں ریئل سٹیٹ میں مختلف قسم کی پراپرٹیز ہیں جن میں اپارٹمنٹ اور ولا سے لے کر کمرشل دکانیں تک شامل ہیں جو جنوبی ایشیا کے سرمایہ کاروں کو راغب کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام اور عوامی سہولیات کسی بھی سرمایہ کار کے لیے ان وجوہات میں شامل ہیں جس کی وجہ سے وہ دبئی میں سرمایہ کاری کرنا چاہیں گے۔‘

دبئی میں پراپرٹی خریدنا کتنا آسان ہے؟

شرجیل احمر نے جو وجوہات بیان کی ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں تاہم دبئی میں کام کرنے والے ایک چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ نے بی بی سی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے قوانین ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’چند سال قبل تک کسی کے لیے بھی ایک بیگ میں کیش لا کر بنا کسی سوال جواب کے دبئی میں پراپرٹی خریدنا ممکن تھا اور زیادہ تر لوگوں نے اسی دوران دبئی میں سرمایہ کاری کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دبئی کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ یہاں کسی سے یہ سوال نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ پیسہ جو یہاں سرمایہ کاری کے لیے لا رہے ہیں وہ کیسے اور کن ذرائع سے آیا۔ یہاں سرمایہ کاری کرنا اور پیسہ لانا سوئٹزرلینڈ سے بھی آسان تھا۔‘

ان کے مطابق ان مبہم قوانین کی وجہ سے ہی ایف اے ٹی ایف نے 2022 میں دبئی کو گرے لسٹ میں شامل کر لیا تھا اور رواں سال مارچ میں دبئی اس لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ ’اب قوانین میں تبدیلی ہو چکی ہے اور بینکنگ ذرائع کے ذریعے ہی پیسہ لایا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے اب یہ سب اتنا آسان نہیں رہا۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’مجموعی طور پر دبئی میں بینک اب بھی کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ پیسہ کہاں سے اور کیسے کما کر لا رہے ہیں جب تک وہ بینکنگ چینل سے آ رہا ہو۔‘

دبئی
Getty Images

دبئی میں پراپرٹی خریدنے کے قواعد و ضوابط کیا ہیں؟

شرجیل احمر کا کہنا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی، چاہے اس کا تعلق پاکستان سے ہو یا انڈیا سے، دبئی میں پراپرٹی خرید سکتا ہے تاہم چند قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔

’پہلی چیز یہ ہے کہ دبئی میں قانونی طریقے سے داخل ہونے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ ہو اور دوسری چیز یہ کہ خریدار آمدن یا معاشی استحکام کا ثبوت دکھائے کہ وہ اس سودے کی مالی استطاعت رکھتا ہے یا نہیں۔‘

شرجیل احمر کے مطابق پراپرٹی خریدنے کے خواہشمند کو دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ سے ایک نو ابجیکشن سرٹیفیکیٹ یعنی این او سی بھی درکار ہو سکتا ہے۔

’خریدار کو بینک میں پیسہ جمع کروانا ہوتا ہے اور پھر ضروری کاغذات مکمل کرنا ہوتے ہیں جس میں فروخت کا معاہدہ شامل ہے۔‘

شرجیل کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا ہے کہ خریدار یہ سب کام کسی ایسے وکیل یا ایجنٹ کی مدد سے کریں جو دبئی میں پراپرٹی کی خریداری کے عمل اور ان سے جڑے قواعد و ضوابط سے مکمل طور پر آگاہ ہوتے ہیں تاکہ کسی پیچیدگی سے بچا جا سکے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.