چین کا خلائی مشن کیسے نظام شمسی کی ابتدا اور مریخ پر زندگی کے امکان کی جانچ کرے گا؟

چین کے خلائی مشن چینگ-6 کا مقصد چاند کے نمونے اکٹھا کر واپس لانا ہے۔ مگر اس سے علاوہ یہ چین کی خلائی تحقیق سے متعلق اس کے عزائم کا مظہر ہے۔
چین
Getty Images
چین کا خلائی مشن

چین کے خلائی مشن چینگ-6 کا مقصد چاند کے نمونے اکٹھا کر واپس لانا ہے۔ مگر اس سے علاوہ یہ چین کی خلائی تحقیق سے متعلق اس کے عزائم کا مظہر ہے۔

یہ اب تک چین کا سب سے اہم خلائی مشن ہے جس کا آغاز 3 مئی کو ہوا۔ اس مشن میں چین نے ایک ساتھ چاند کی طرف چار خلائی جہاز روانہ کیے۔

چین کے اس مشن کا مقصد چاند کے دور والے حصے سے پہلے نمونے اکٹھا کرنا ہے اور پھر انھیں محفوظ طریقے سے زمین پر لانا ہے۔ یوں اس کا مقصد نظام شمسی کی ابتدائی تاریخ کے ساتھ ساتھ زمین کے انتہائی قریبی پڑوسی چاند سے متعلق نئی معلومات ہم تک پہنچانا ہے۔

اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے چاروں خلائی جہازوں کو ایک پیچیدہ چکر کاٹنا ہو گا۔

چینگ-6 خلائی جہاز نے چاند پر جانے کے اپنے سفر میں تقریباً 4.5 دن گزارے۔ ایک بار چاند کے مدار میں پہنچنے کے بعد اس کا لینڈر جہاز سے الگ ہو کر چاند کے دور والے حصے ’اپولو کریٹر‘ کی طرف جائے گا۔ وہاں اس کے جون کے شروع میں اترنے کی امید ہے۔

چونکہ چاند کے اس دور دراز والے حصے کا رخ کبھی بھی زمین کی طرف نہیں ہوتا، لہٰذا زمین کے ساتھ آپریشنز اور مواصلات کو کیو کیاؤ 2 (Queqiao-2) کے ذریعے سہولت فراہم کی جائے گی۔ یہ ایک مواصلاتی سیٹلائٹ ہے جو چین نے مارچ میں لانچ کی تھی۔

لینڈر چاند کی سطح اور اس کی زمین کے نیچے سے مواد کو جمع کرنے کے لیے ایک سکوپ اور ڈرل کا استعمال کرے گا۔ یہ ایک مضبوط اترنے والی مشین کی مدد سے چاند پر اتریں گے اور پھر مدار میں موجود آربیٹر کو وہاں سے حاصل مواد کو پہنچانے کا کام سونپا جائے گا۔

چین کا خلائی مشن
Getty Images
سیٹلائٹ لانچ

یہ قریب ایک میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرے گا۔ اس لیے آربیٹر اور اسینڈر کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے اس سٹیک درستی کی ضرورت ہوگی۔ زمین پر پر موجود سٹیشنوں سے ان کی دوری کی وجہ سے اسے خودکار ہونے کی ضرورت ہوگی۔

بلی اور چوہے کے اس آسمانی کھیل کے وہاں سے حاصل نمونے زمین کے مدار میں دوبارہ داخل ہونے والے کیپسول میں منتقل کیے جائیں گے۔ وہ خلائی جہاز چین کے شینزو کریو سپیس کرافٹ کے واپس آنے والے ماڈیول کے چھوٹے ورژن سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس آربیٹر کو زمین کی حدود میں داخل ہونے سے عین قبل چھوڑا جائے گا۔

یہ پہلے تو زمین کی فضا میں خود کو اچھالے گا تاکہ چاند سے واپس آتے وقت جو اس کی تیز رفتاری ہے اس کی کچھ توانائی کو کم کرنے میں مدد ملے۔ اس کے بعد یہ اندرونی منگولیا کے گھاس کے میدانوں میں چاند سے لائے نمونے کو پہنچانے کے لیے اترے گی۔

ساؤتھ پول-آٹکن (ایس پی اے) بیسن کہے جانے والے ایک بڑے گڑھے سے لیے جانے والے یہ نمونے لیبارٹریوں تک پہنچیں گے جو کہ سائنسی مطالعے کے لیے متنوع مواد ہوں گے۔

برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں قمری اور سیاروں کی سائنس کی پروفیسر کیتھرین جوئے کا کہنا ہے کہ 'ایس پی اے بیسن چاند پر چٹانیں حاصل کرنے کے لیے بہترین جگہوں میں سے ایک ہے جس پر تحقیق کی جا سکتی ہے تاکہ چاند کی ابتدا اور ارضیاتی ارتقا کے بارے میں ہمارے پاس موجود سوالات کا جواب مل جا سکے۔'

چیگ-6 کی طرف سے جمع کی گئی چٹانیں خاص طور پر چاند کے دور والے حصے سے آنے والی سے پہلی چٹانیں ہوں گی جبکہ اس سے قبل اپالو مشنز نے چاند کے قریبی حصوں کا دورہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ 'امید ہے کہ ان سے ہمیں یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ چاند کے قریب اور دور کے حصے ارضیاتی طور پر ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیوں ہیں۔'

کیتھرن جوئے کا کہنا ہے کہ ’جمع کیے گئے نمونوں سے ہمیں خود ہی بڑے اثر والے بیسن کی تاریخ جاننے میں مدد ملے گی۔ اس سے اس بات پر روشنی پڑے گی کہ جب سیاروں کے بڑے ایمبریوز اپنی ابتدائی تاریخ میں چاند پر حملہ کر رہے تھے تو کیا ہو رہا تھا۔‘

تاہم سائنسی دلچسپیوں کے علاوہ چینگ ای-6 مشن چین کے کچھ بڑے عزائم کو بھی دکھلاتا ہے۔

یہ انتظامات اور تدابیر ایک اور ممکنہ مشن کے لیے کارآمد ثابت ہوں گی اور اس طرح کے حربوں سے مریخ سے بھی نمونے حاصل کیے جا سکتے۔ چاند کے نمونے نظام شمسی کے رازوں کے حوالے سے بڑی سائنسی معلومات کے انکشاف کا موجب ہو سکتے ہیں جبکہ سرخ سیارے کا مواد ممکنہ طور پر سب سے بڑے اسرار کے سلسلے میں نئی بصیرت فراہم کر سکتے ہیں کہ کیا وہاں زندگی ممکن ہے یا پھر مریخ قابل رہائش ہے یا نہیں۔

ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) بھی مریخ سے حاصل کیے جانے والے نمونے پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ پیچیدہ منصوبہ حال ہی میں تاخیر، بجٹ کے مسائل اور کانگریس کی رکاوٹوں کا شکار ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چین حیران کن طور پر پہلے اس پر نظر ڈال سکتا ہے۔

ایک اور قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ چینگ ای 6 کا چاند کا سفر چاند کی سطح کے نمونے لانے کے لیے نہ ہو بلکہ اس سے یہ بھی عقدہ کھلے کہ اگر آپ خلابازوں کو چاند کی سطح پر لے جانا اور بحفاظت زمین پر واپس لانا چاہتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے۔ اور چینگ ای-6 مشن میں شامل اضافی پیچیدگیاں انسانوں پر مبنی قمری مشن کے لیے ایک سیڑھی ثابت ہوسکتی ہیں۔

چین کا خلائی مشن چینگ-6
Getty Images
چین کا خلائی مشن چینگ-6 چاند کے جنوبی قطب سے وہاں کی مٹی کے نمونے لانا ہے

چین نے پچھلے سال اعلان کیا تھا کہ وہ سنہ 2030 سے پہلے اپنا پہلا عملے والا قمری مشن شروع کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، جس میں خلابازوں کے ایک جوڑے کو مدار میں انتظار کرنے والے ساتھی کے ساتھ دوبارہ شامل ہونے سے پہلے چند گھنٹوں کے لیے چاند کی سطح پر لے جایا جائے گا۔ یہ ناسا کے اپالو مشن کی طرح ہوگا جیسا کہ چینگ ای-6 میں آربیٹر اور اسینڈر کے درمیان رابطے سے واضح ہے۔

چین چاند پر کوئی قلیل مدتی منصوبہ نہیں رکھتا کہ وہاں پرچم لہرا دیے یا پھر قدموں کے نشان بنا دیے۔ ان کی خواہش اپالو کی بجائے ناسا کے آرٹیمس جیسی ہے۔ چین سنہ 2026 اور 2028 کے آس پاس چاند کے جنوبی قطب پر دو الگ الگ مشن شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں وہ قمری مٹی کے استعمال سے تھری ڈی اینٹوں کا استعمال بھی شامل ہے جو کہ اس کے قمری بیس یا اڈے کا پیش رو ہو سکتا ہے۔

کیتھرن جوئے کا کہنا ہے کہ 'چاند پر جنوبی قطب وہ منزل ہے جس کی تیاری میں ہم لگے ہیں کہ ہم انسانوں کو پھر سے چاند پر بھیجیں سکیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ چينگ-7 اور 8 کے ناسا کے کمرشل لینڈر پروگرام کی بھی منصوبہ بندی ہے جس کے تحت کئی مشن یہ جانچنے کے لیے اتریں گے کہ قطبی مٹی میں پانی اور برف سمیت کہاں اور کیا کیا طیران پزیر چیزیں موجود ہیں۔

'اس طرح کا مواد مستقبل کے انسانی ایکسپلورر کے کام آسکتا ہے اس لیے یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہو گا کہ اگلے چند سالوں میں تمام منصوبہ بند روبوٹک لینڈرز کو کس تنوع کا سامنا کرنا پڑے گا۔'

یہ کوششیں چاند پر بیس یا اڈہ بنانے کی پہل کا حصہ ہیں۔ روس کے ساتھ مل کر چین ایک مشترکہ بین الاقوامی قمری تحقیقی سٹیشن (آئی ایل آر ایس) کے لیے دوسرے ممالک کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور جوہری ری ایکٹر جیسی بنیادی ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے جو چاند کی راتوں میں بجلی فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ چاند کی راتیں زمین پر دو ہفتوں کے برابر ہوتی ہیں۔

یہ منصوبہ ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے متوازی لیکن علیحدہ منصوبہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ زمین پر بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی تقسیم صرف زمین تک ہی محدود نہیں ہے۔ بعض اوقات خلائی تحقیق کو خالصتاً سائنسی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہ جغرافیائی سیاسی صلاحیتوں کا مظہر بھی ہے اور دوسرے اہداف کو حاصل کرنے کی صلاحیتوں کا اشارہ بھی ہے۔

چین کے خلائی عزائم قدرتی طور پر پیچیدہ ہیں۔ لیسسٹر یونیورسٹی میں خلائی پالیسی اور بیرونی خلائی بین الاقوامی تعلقات پر تحقیق کرنے والے بلیڈن بوون کہتے ہیں کہ 'تمام ریاستیں مختلف وجوہات کی بنا پر خلائی منصوبوں پر عمل پیرا ہیں، ان میں سے زیادہ تر جنگ، ترقی اور وقار کے زمرے میں آتی ہیں۔'

بوون کا کہنا ہے کہ 'کچھ سائنسی اور تحقیقی ہیں، جیسے چینگ مشن، دیگر معیشت اور انفراسٹرکچر کے لیے ہیں اور جبکہ مزید دیگر فوجی صلاحیتوں یا قوت بڑھانے کے لیے ہیں۔'

چین کے خلائی سٹیشن کا نمونہ
Getty Images
چین کے خلائی سٹیشن کا نمونہ

چین کے پاس اب اپنا خلائی سٹیشن ہے۔ اس کا نام تیانگونگ یا 'بہشتی محل' ہے۔ اس سٹیشن پر ایک وقت میں چھ ماہ کے عرصے کے لیے تین خلاباز رہتے ہیں۔ اس کا بیڈو نامی جھرمٹ امریکہ کے جی پی ایس سسٹم کا جواب ہے۔

اس نظام کے تحت ٹائمنگ اور پوزیشننگ سروسز کی فراہمی نے چین میں اقتصادی ترقی کو مہمیز لگائی ہے اور مقام پر مبنی ایپ سروسز اور معاون شعبوں جیسے فنانس، زراعت، جہاز رانی، ہوا بازی اور دوسرے بہت سے شعبوں میں ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ چین کی فوج کو درست میزائل اور جنگی سازوسامان کی رہنمائی کی صلاحیتوں اور پوری دنیا میں اپنی افواج کو زیادہ مربوط طور پر پروجیکٹ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ کوئی بہت غیر معمولی بھی نہیں ہے۔

بوون کہتے ہیں: 'حقیقت یہ ہے کہ چین کے پاس جو فوجی خلائی پروگرام اور اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار ہے وہ ماضی میں دوسری بڑی خلائی طاقتوں کے پاس رہی ہے اور آجبھی ہے۔

’چینی رہنماؤں کے سامنے جنگ، ترقیات اور وقار کے مخلوط مفادات ہیں۔ ان بڑے پروگرام کی کامیابیوں سے وہ بیرونی اور اندرونی خطرات سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، اپنی فوجی طاقت کو پیش کرنا چاہتے ہیں، عالمی معیشت میں اقتصادی پوزیشنوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، اور اس سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔'

اگرچہ چینگ-6 جیسے بڑے مشن کبھی کبھار ہی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں تاہم چین کا خلائی پروگرام دائرہ کار وسیع ہے اور اس کے اپنے اور زمین پر موجود دیگر ممالک کے لیے اثرات ہیں۔

سائنس کی بات کریں تو چین فلکیات، فلکی طبیعیات اور ایگزوپلینیٹ کا پتہ لگانے کے میدان میں بھی ترقی کر رہا ہے۔ رواں ماہ ملک کے اہم خلائی سائنس کے اہلکار نے اپنے مشنوں کی ایک سیریز کا انکشاف کیا جس کا مقصد نئی کامیابیاں حاصل کرنا ہیں۔ ان میں مصنوعی سیاروں کا ایک جھرمٹ کی تشکیل شامل ہے۔ اس کا مقصد چاند کے دور والے حصے کو زمینی مداخلت کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرنا اور ابتدائی کائنات سے دھندلے سگنل بھی لینے کی کوشش کرنا ہے۔

اس کا ایک اور مشن ہے جس کا مقصد زمین جیسے ایگزوپلینٹوں اور نام نہاد بدمعاش سیاروں کا پتہ لگانا ہے جو آکاش گنگا میں ستاروں کے مدار میں نہیں جاتے ہیں، جبکہ ان کی ایک شمسی تحقیقات سورج کے قطبوں کے پہلے منظروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

چین کا تیانوین سیاروں کا پروگرام زمین کے قریب نجمیوں کا نمونہ لینے اور دم دار تارے کا دورہ کرنے، مریخ سے نمونے جمع کرنے اور مشتری پر تحقیقات بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بعد کے مشنوں میں وہ نظام شمسی کے بڑے سیاروں یورینس یا نیپچون کا رخ کر سکتا ہے اور مستقبل کے لیے یہ سب زیر غور ہے۔

چین کے خلائی حکام نے زمین-چاند اقتصادی زون بنانے کی بھی بات کی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ جیسی دیگر خلائی طاقتوں کی طرح چین بھی خلا اور اس کے وسائل کو تجارتی بنانے پر غور کر رہا ہے۔

اگرچہ ابھی کے لیے چین کی توجہ جون کے اختتام سے پہلے چینگ-6 چاند کی سطح سے نمونے لانے کی کامیابی ہے مرکوز ہے۔ اس کے بعد اس کا اگلا تجرباتی مشن اس دہائی کے آخر میں اس کا اپنے خلابازوں کو وہاں بھیجنا ہو سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.