کھاؤ چھے: گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے پھولوں سے سجا خوشبودار شاہی پکوان

کیا آپ نے کھاؤ چھے کے بارے میں سنا ہے؟ بدھ مت کے نئے سال کے دوران تھائی لینڈ کی شدید گرمی میں یہ پکوان تازگی اور ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے۔

کیا آپ نے کھاؤ چھے کے بارے میں سنا ہے؟ بدھ مت کے نئے سال کے دوران تھائی لینڈ کی شدید گرمی میں یہ پکوان تازگی اور ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے۔

تھائی لینڈ میں بدھ مت کے کیلنڈر کے تحت نیا سال سونگ کرن منایا جاتا ہے۔ اس وقت اپریل کا مہینہ ہوتا ہے اور جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں درجہ حرارت روز بروز بڑھ رہا ہوتا ہے۔

آسمان عام طور پر نیلا اور بے داغ ہوتا ہے ایسے میں تیرتے ہوئے بادل کے سائے کے نیچے آرام نہیں کیا جا سکتا اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ فضا میں رطوبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ایسے میں نئے سال کے موقع پر ٹھنڈک کا احساس حاصل کرنے کا ایک طریقہ ملک بھر میں سالانہ پانی کی لڑائیوں پر مبنی تقریب ہوتی ہے۔ اس تقریب میں واٹر گن اور بالٹیوں سے پانی کے ساتھ جنگ ہوتی ہے۔ جشن منانے اور ٹھنڈک کے احساس کے لیے ایک اور طریقہ ہے اور وہ ہے کھاؤ چھے کھانا۔

کھاؤ چھے (بھیگے ہوئے چاول) ایک ٹھنڈا موسمی علاج ہے جو تھائی لینڈ میں موسم گرما کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس ڈش کی تاریخ سینکڑوں سال پرانے مون لوگوں سے ملتی ہے۔ مون ایک نسلی گروہ ہے جو پورے میانمار اور تھائی لینڈ میں پیدا ہوا اور 16ویں صدی میں اس وقت کے سیامی معاشرے میں ضم ہو گیا۔

تھائی سکالر اور سنہ 2017 میں شائع ہونے والی کک بک 'بنکاک' کی مصنفہ لیلا پنیارتا بندھو کہتی ہیں: ’کھاؤ چھے کی جس شکل کو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر بنکاک میں، وہ مون کھاؤ چھے سے بہت کم مماثلت رکھتی ہے۔' ان کی کتاب میں اس پکوان کے متعلق تفصیلات درج ہیں جس کے مطابق کھاؤ چھے کو 16 ویں صدی میں بھیگے ہوئے چاولوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے مٹی کے برتنوں میں پیش کیا جاتا تھا کیونکہ برف آسانی سے دستیاب نہیں تھی۔ اس کے ساتھ پیش کیے جانے والی سائیڈ ڈشز بھی اتنی پیچیدہ نہیں تھیں جتنی کے وہ بعد میں بن گئیں۔

بہر حال 19ویں صدی میں سیام کے شاہی خاندان کے بادشاہ رام چہارم کے دورِ حکومت میں یہ پکوان بہت پیچیدہ شکل اختیار کر گيا۔ ابتدا میں تو یہ بہت آسان اور سیدھا سادا پکوان تھا لیکن پھر اس کی کایا پلٹ گئی۔ کھاؤ چھے دیکھنے میں بھی خوبصورت اور پرکشش نظر آئے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت کوشش کی گئی۔

اس طرح اس کے ساتھ پیش کیے جانے والے ضمنی پکوان میں پھولوں کی شکل میں نازک تراشی ہوئی سبزیاں شامل کی گئیں۔ اس کے علاوہ اس میں’ برف کو شامل کیا گيا جس کا اس وقت عام لوگوں کے لیے حاصل کرنا ناممکن تھا اور اس طرح کھاؤ چھے بطور خاص شاہی پکوان کے طور پر سامنے آیا۔

اب جو نسخہ وجود میں آیا اسے شاہی باورچیوں اور اشرافیہ کے خاندانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ اسے تیار کرنے کی ابتدا چاول دھونے سے ہوتی ہے۔

نیویارک سٹی کے بنکاک سپر کلب کے ایگزیکٹو شیف میکس وٹا واٹ بتاتے ہیں کہ ’آپ کو اس چاول کو دوسرے چاولوں سے زیادہ دھونا ہوتا ہے تاکہ پکانے پر یہ آپس میں چپکے نہ رہیں۔‘

وٹاوت بنکاک میں پلے بڑھے اور انھیں ماہر طباخ استاد جنترارت ہیم ویج نے کھاؤ چھے بنانا سکھایا ہے۔ وہ بنکاک میں کھاؤ چھے کو بہترین انداز میں پکانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

چونکہ چاولوں کو لمبے عرصے تک بھگویا جاتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ وہ دھونے کے دوران ٹوٹنے لگیں۔ انھیں بھگونے کی وجہ سے یہ بادل کی طرح گدلے ہو جاتے ہیں اس لیے انھیں دھونا خاص طور پر اہم ہے۔ انھیں ابالنے کے بعد چاول کو برف کے پانی میں ڈبویا جاتا ہے جو پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوتا ہے۔ اس میں یاسمین، یلنگ یلنگ، دماسک گلاب اور بریڈ فلاور شامل ہوتے ہیں۔

وٹاوٹ کہتے ہیں کہ ’یہ موسم گرما کی ابتدا کی ایک علامت جب پھول کھل اٹھتے ہیں۔‘

پنیاراتابندھو کے پاس اپنے دادا کی بچپن کی یادیں ہیں جب وہ سپریڈ شیٹ کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص اوقات کا پتہ لگاتے تھے کہ کب کون سے پھول کھلتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب بہت منظم تھا۔‘

مناسب وقت پر پھولوں کو چنا جاتا تھا، خاص طور پر کھاؤ چھے کی تیاری سے پہلے شام کو تاکہ پھولوں سے زیادہ سے زیادہ خوشبو حاصل کی جا سکے۔ اس کے بعد پھولوں کو کم از کم دو گھنٹے تک پانی میں ڈبو کر ان کی خوشبو حاصل کی جاتی تھی۔

یہاں تک کہ پھولوں کو بھی بہت احتیاط کے ساتھ بھگویا جاتا تھا۔ اگر پھولوں کو پانی میں زیادہ دیر تک چھوڑ دیا جائے تو وہ جھلس کر خراب ہو جائیں گے، جس سے پانی میں ایک تیز اور ناسائشتہ ذائقہ رہ جائے گا۔ اگر انھیں کافی دیر تک کھڑا نہیں کیا جاسکتاتو گلدستہ کھاؤ چھے کے ساتھ پیش کی جانے والی سائیڈ ڈشز کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکے۔

اس پکوان کی خوشبو کو مزید بڑھانے کے لیےتھائی کُلنری کینڈل جسے تیان اوپ کہا جاتا ہے اسے پھولوں کے پانی میں دھونی دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ صرف اس ڈش کو تیار کرنے کی بنیاد ہے۔ کھاؤ چھے ایک ایسا تجربہ ہے جس میں بہت ہی مفصل تراکیب شامل ہیں۔

پنیاراتابندھو کہتی ہیں کہ ’نہ صرف اس کا بنانا مشکل ہے، بلکہ اسے کھانا بھی مشکل ہے۔‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سے تیز، نمکین اور مچھلی والا ذائقہ آتا ہے جو کچھ لوگ مناسب نہیں سمجھتے۔ اس کے ساتھ کیکڑے کے پیسٹ سے بنے پیڑوں کو مچھلی کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور پھر انڈے میں ڈبو کر تلا جاتا ہے۔ یہ پیڈ سی ایو (نوڈلز کی ڈش) سے بہت مختلف ہوتا ہے۔

جب پنیاراتابندھو نے اپنی طباخی کی کتاب لکھنا شروع کی تھی تو وہ اس معاملے میں شش و پنج کا شکار تھیں کہ آیا کتاب میں انھیں کھاؤ چھے کی ترکیب شامل کرنی چاہیے یا نہیں کیونکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ اس کا گھر پر تیار کرنا ان دنوں کتنا مشکل امر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں جانتی تھی کہ یہ ایک مشکل چیز ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بنکاک کا ایک حصہ بھی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے یہ بہت پرانے طرز کے کھانوں میں شامل تھا اور ریستورانوں میں عام نہیں تھا۔ لیکن آج کل ٹیکنالوجی کے ساتھ پھول سال بھر کھل سکتے ہیں جس کے سبب اس کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔‘

حال ہی میں کھاؤ چھے اپنی بے شمار سائیڈ ڈشز جیسے جھینگے کے پیسٹ کے پکوڑے، پھول کی شکل میں تراشی ہوئی سبزیوں، بھرے ہوئے چھلکے اور کالی مرچ، میٹھے بیف اور خنزیر کے گوشت اور انڈوں کے نازک چھلکوں کی وجہ سے یہ ڈش سوشل میڈیا پر مقبول ہو گئی۔

یہ بظاہر شاندار نظر آتا ہے خاص طور پر جب روایتی تھائی برتنوں یا ٹفن میں انھیں پیش کیا جاتا ہے۔ وٹاوٹ کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات یہ اتنا خوبصورت نظر آتا ہے کہ اسے کھانے کا دل نہیں کرتا۔‘

صاف شفاف پھولوں کی خوشبو والے پانی کو گدلا کرنے سے بچانے کے لیے ڈش سے لطف اندوز ہونے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ وٹاوٹ کہتے ہیں کہ ’آپ کو چاولوں کے ساتھ تمام مصالحہ جات نہیں ڈالنے چاہییں۔ اس کے بجائے آپ کو چاول اور سائیڈ ڈشز کو باری باری کھانا چاہیے۔ سبزیاں اور اچار گائے کے گوشت اور نمکین کیکڑے کے پیسٹ کے بھاری ذائقوں کو کاٹ سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ 'کھاؤ چھے کے بارے میں مزے کی بات یہ ہے کہ کھانے کو تازہ رکھنے کے لیے مختلف ذائقے مل کر کام کرتے ہیں اور آپ زیادہ سے زیادہ کھانا کھا سکتے ہیں۔'

وٹاوٹ کو اس بات کی خوشی ہے کہ جو پکوان کبھی شاہی خاندان اور تھائی معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے مخصوص تھا اب زیادہ آسانی سے دستیاب ہے اور ہر کسی کی دسترس میں ہے، خاص طور پر سونگ کرن یعنی نئے سال کے موقع پر جب تھائی لینڈ بہت گرم ہونے لگتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’تھائی لوگ اپنی آبائی ثقافت کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ اپنی تاریخ اور ثقافت کو دوبارہ سے پسند کر رہے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.