افغانستان میں بغلان، بدخشاں، ہرات اور غور میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور طالبان حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک کم سے کم 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں بغلان، بدخشاں، ہرات اور غور میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور طالبان حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک کم سے کم 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس سیلاب میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں جبکہ درجنوں افراد لاپتہ ہیں اور تقریباً دو ہزار مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے مطابق اب سیلاب سے بغلان صوبے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ایک ہزار سے زیادہ گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
طالبان حکام کے مطابق شمالی افغانستان میں سیلاب کے نتیجے میں 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ صوبہ بغلان کے پانچ اضلاع میں شدید بارشوں کے بعد درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ جمعہ کی رات اس سارے علاقے میں مزید طوفان کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
https://twitter.com/WFP_Afghanistan/status/1789238729002918303?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1789238729002918303%7Ctwgr%5E35a918ad5ae40c0e30133a3181879dc7c2d96d2a%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.aljazeera.com%2Fnews%2F2024%2F5%2F11%2Fmore-than-150-killed-in-afghanistan-flash-floods-government-says
سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی دیہاتوں کے گھروں میں پانی کے ریلے بہنے لگے جس سے تباہی ہوئی ہے۔
افغانستان گذشتہ چند ہفتوں کے دوران غیرمعمولی طور پر شدید بارشوں کی زد میں رہا ہے۔ اپریل کے وسط سے سیلاب میں متعدد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے بی بی سی کو بتایا کہ کم از کم 131 افراد بغلان صوبے اور 20 تخار میں ہلاک ہوئے ہیں۔
مرنے والوں میں سے اکثر کا تعلق بغلان کے بورکا ضلع سے تھا جہاں 200 سے زیادہ لوگ اپنے گھروں میں پھنسے ہوئے تھے۔
اس سے قبل عبدالمتین قانی نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ کابل کے شمال میں واقع بغلان میں امدادی سرگرمیوں کے لیے ہیلی کاپٹرز بھیجے گئے تھے، لیکن نائٹ ویژن لائٹس کی کمی کی وجہ سے ’آپریشن کامیاب نہ ہو سکے۔‘
مقامی اہلکار ہدایت اللہ ہمدرد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ فوج سمیت امدادی اہلکاروں نے ’کیچڑ اور ملبے کے نیچے کسی بھی ممکنہ متاثرین کی تلاش کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ کچھ خاندانوں کو خیمے، کمبل اور کھانا فراہم کیا گیا جو اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔
کابل کو شمالی افغانستان سے ملانے والی مرکزی سڑک بند ہے۔ سیلاب سے تقریباً دو ہزار گھروں، تین مساجد اور چار سکولوں کو بھی نقصان پہنچا۔
سیلابی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بارش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ عام نکاسی آب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
ماہرین کے مطابق موسم خزاں اور سردیوں میں خشک سالی کی وجہ سے زمین کو بارش کا پانی جذب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں ہر سال شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں کچے اور غیر معیاری مکانات اور بستیوں میں رہنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جنھیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید خطرات کا سامنا ہے۔ سیلاب کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں لیکن زیادہ تر وقت موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ایک بڑی وجہ بتایا جاتا ہے۔
صنعتی دور کے آغاز سے دنیا کے درجہ حرارت میں 1.1 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے اور جب تک حکومتیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کرتیں، درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔