مذاکرات کی بند گلی، اجمل جامی کا کالم

image
سیاست ممکنات کا نام ہے، عموماً اخلاقیات اور اصول ممکنات کے تابع رکھتے ہوئے ہی تراشے جاتے ہیں۔ اصولوں پر بھاری ضرب لگائے بغیر ممکنات تلاش کرنا کامیاب سیاستدان کی پہچان ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں نظام آلودہ ہو چکا، لیکن پھر بھی چناؤ ہوا، آلودگی سے لبریز چناؤ۔ اس کے نتیجے میں آلودہ سائے تلے سرکار بھی بن چکی، لیکن سیاسی استحکام تاحال ایک خواب ہے۔

وجہ ایک مقبول اور دوسرے طاقتور فریق کے بیچ تناؤ اور ہٹ دھرمی ہے۔ اسی کارن خلا پیدا ہوا۔ انگیجمنٹ کا خلا۔ اس خلا کو پُر کرنے کی بجائے سیاست اور ریاست بدستور طاق نقطوں پر پوزیشن لیے بیٹھی ہے۔ جب بھی بات چیت کا سیاسی رابطہ کاری کا ماحول بنا یا بات ہوئی جواب میں ہٹ دھرمی اور تند و تیز بیانات داغ کر ماحول ریورس کر دیا گیا۔ رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب شہریار آفریدی اور رؤف حسن نے برملا اعتراف کیا کہ ان کی جماعت مذاکرات صرف فوج کیساتھ کرنے میں سنجیدہ ہے۔

اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت سے انکاری پی ٹی آئی کا ہدف سپہ سالار اور ڈی جی آئی ٹھہرے۔

دیگر رہنماؤں نے اپنے تئیں بہتیری وضاحتیں بھی  کیں لیکن بے سود کیونکہ سیاست کی ہلکی پھلکی سمجھ بوجھ رکھنے والا طالب علم بھی جانتا ہے کہ کپتان کی جماعت اپنا مافی الضمیر ایکپسوز کر چکی۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ سرکار میں شامل جماعتوں کے پاس جعلی مینڈیٹ ہے لہذا ان سے بات چیت بے سود ہے، یہ جماعتیں مقتدرہ کی مدد سے مینڈیٹ چھین کر سرکار بنانے میں کامیاب ہوئیں اور ان کے پاس پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی نوعیت کی رابطہ کاری یا مذاکرات کا اختیار نہیں کیونکہ سرکار اصل سرکار کی اجازت کے بنا اس سلسلے میں کوئی قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔

لہذا کیوں نہ ان سے بات کی جائے جو اصل سرکار ہیں۔ ان کی دلیل اپنی جگہ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا براہ راست فوج سے باتپی ت چیت کا مشن جمہوری طریقہ ہے؟ کیا یہ اصول پسندی ہے؟ سیاسی جماعتوں کی حققیت کو تسلیم نہ کرنا کیا سیاسی اپروچ ہے؟ سیاست کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بجائے کہیں اور حاضری دینا مینڈیٹ کے لیے باعث احترام ہے یا باعث ندامت؟ سیاست ممکنات کا نام ہے، ڈیڈ اینڈ سے حل نکالنے کا نام۔

یہ الگ کہانی ہے کہ فوج کے ساتھ ہاتھ ملانا ہماری سیاسی تاریخ پر سب سے بڑا سیاہ دھبہ ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے مقتدرہ کے ساتھ ہماری سیاسی جماعتوں کی پریم کہانی انتہائی بھیانک ہے لیکن اسے بھی بھیانک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رہنما بار بار اسی راہ پر چلنے کی خواہش کرتے ہیں جس پر چلنے سے دھبے لگتے ہیں سیاست آلودہ ہوتی ہے اور اصول ہوا ہوتے ہیں۔

ابھی چناؤ کے بعد پیپلز پارٹی نے انتظار کیا، دو سینیئر رہنما بیرسٹر گوہر اور دیگر سے ملتے رہے، مگر پی ٹی آئی راہ نکالنے یا بات کرنے کو تیار نہ تھی حکومت سازی میں ساتھ لینا یا ساتھ دینا تو دور کی بات تھی۔

پی ٹی آئی موجودہ حکومت سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی (فوٹو: اے ایف پی)پی پی کی ایک سینیئر رہنما نے حالیہ دنوں ایک ملاقات میں اس بابت تفصیلی انکشافات کیے کہ کیسے بیرسٹر گوہر چاہتے ہوئے بھی پی پی کے ساتھ بات چیت آگے نہ بڑھا پائے۔

جب یہی رہنما جناب زرداری کے پاس پہنچے تو وہ مسکرا دیے، کہنے لگے کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن عمران خان کی گارنٹی کون دے گا؟ 

اس بیچ پھر زرداری صاحب بھی کہیں اور مل بیٹھنے کے بعد چاہتے نہ چاہتے سرکار میں آنے پر تیار ہو چکے تھے اور یوں پی پی اور پی ٹی آئی کے بیچ چند دنوں کی خوش فہمی بادلوں کی طرح کسی اور گولے کی جانب اڑ گئی۔

اور اب پی ٹی آئی بذریعہ بھٹنڈا نجات حاصل کرنے کی آواز لگا چکی ہے۔ اس بولی  کے بعد دی جانے والی وضاحتیں بے سود ہیں کیونکہ رؤف حسن تو یہ تک کہہ چکے کہ ہم  نے سوا سال سے ایک کمیٹی بنا رکھی تھی لیکن مقتدرہ نے رابطہ ہی نہ کیا۔

اب یہی کمیٹی اگر دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ بات چیت کے لیے بھی بنائی جاتی تو سوچیے آج وہی کمیٹی میڈیا پر حکومتی جماعتوں کی کیسے آتما رول رہی ہوتی کہ جناب ہم تو بات چیت کرنا چاہ رہے تھے ہم نے تو دعوت دی لیکن سرکار کے پلے ہی کچھ نہیں  اور سرکار بات چیت کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہی۔

اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی جہاں بات چیت کی خواہش رکھتی ہے وہاں سے کیا رد عمل آئے گا؟ خاکسار کی جانکاری ہے کہ آگے سے تقریباً جواب ہے، جواب دلچسپ اور معنی خیز ہے اور یہ جواب آنے والے دنوں میں میڈیا مارکیٹ میں بھی سنائی دے گا۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ عمران خان جعلی کیسز میں سزا دی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)کہا جا رہا ہے کہ جناب اس وقت ملک میں ایک منتخب حکومت ہے، سیاسی جماعت کو کسی مدعے پر اگر کوئی بات چیت کرنی ہے تو سرکار کے ساتھ رابطہ کرے۔ ہم منتخب سیاسی حکومت کے ہوتے ہوئے براہ راست کسی جماعت کیساتھ بات کے مجاز نہیں ہے لہذا کہیں اور رجوع فرما یا جائے۔ اور یہاں پھر اس راگ کی تان ٹوٹ جائے گی اور دائروں کے نئے سفر کا آغاز ہو جائے گا۔

چناؤ سے پہلے کی اٹھان اور نعرے چناؤ کے بعد اس حد تک کارگر نہیں رہا کرتے، اس کے بعد کی سیاست امکانات تلاش کرنے کی سیاست کہلاتی ہے۔ سیاسی رویے ہی دراصل سیاست میں بات چیت کے دوران گارنٹی ہوا کرتے ہیں۔  یہ گارنٹیاں کہیں اور تلاش کرتے کرتے آج ہماری مقتدرہ اور سیاست دونوں کی شناخت آلودہ ہو چکی ہے۔ وگرنہ؛

ان میں سے کوئی ہجر میں امداد کو آئے

جن، دی، پری، خضر یا لقمان وغیرہ۔!

بس عشق کے مرشد سے ذرا خوف زدہ ہوں

جھیلے ہیں بہت ویسے تو نقصان وغیرہ۔۔۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.