ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ: کیا عماد وسیم اور محمد عامر پاکستان کی ضرورت تھے؟

کرکٹ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بورڈ مینیجمنٹ کی تبدیلی اور ایک آدھ سیریز کی بنیاد پہ عجلت میں فیصلے لیے جاتے رہے ہیں جن سے نہ صرف تسلسل خراب ہوتا ہے بلکہ افراد کا اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔
عماد اور عامر
Getty Images

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ تو رواں سال جون میں سجے گا تاہم مارچ کے اس آخری ہفتے میں پاکستانی ٹیم سے ریٹائرمنٹ لینے والے دو کھلاڑیوں فاسٹ بالر محمد عامر اور آل راؤنڈر عماد وسیم کی یکے بعد دیگرے ریٹائرمنٹ سے واپسی کے اعلان نے پاکستانی ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں پر ’آزمائے ہوئے‘ اور ’تجربہ کار‘ کھلاڑیوں کو ترجیح دینے کی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔

اس بحث میں تقویت اس وقت آئی جب پی سی بی نے پیر کو ان 29 کھلاڑیوں کی فہرست کا اعلان کیا جو ایبٹ آباد میں ملٹری اکیڈمی کاکول میں ٹریننگ کیمپ میں شامل ہیں اور اسفہرست میں ان دونوں کھلاڑیوں کا نام بھی شامل تھا۔

تین ہی ماہ پہلے عماد وسیم کا خیال تھا کہ اب پاکستان کے لیے نوجوان کھلاڑیوں کے ہمراہ آگے بڑھنے کا وقت ہے مگر پی ایس ایل کے آخری چار میچز نے گویا وقت کا زاویہ بدل ڈالا ہے اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ اب عماد وسیم کا نقطۂ نظر بن چکا ہے۔

بعینہٖ چار برس پہلے جب محمد عامر اچانک انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تو ان کے لیے بھی پاکستان سب پہ مقدم نہ تھا۔ وہ تب کی مینجمنٹ سے خائف تھے تاہم انھوں نے نئی مینجمنٹ کے تحت کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔

ریٹائرمنٹ پہ یوٹرن نئی بات نہیں

قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور پھر ان پر یوٹرن کے معاملے میں پاکستان کا کرکٹ کلچر خاصا زرخیز رہا ہے۔

1987 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان کے کپتان عمران خان نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو یہ خبر شائقین کے لیے حیران کن تھی اور تب میڈیا پہ جو ہنگامہ خیزی ہوئی، اس کے سبب صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کو مداخلت کرنا پڑ گئی۔

ضیا الحق نے جب ذاتی طور پہ عمران خان سے نظرِ ثانی کی درخواست کی تو وہ ریٹائرمنٹ واپس لینے پہ رضامند ہو گئے۔

کچھ ایسا ہی معاملہ سات برس بعد پیش آیا جب ٹیم سے ڈراپ کیے جانے پہ جاوید میانداد نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا مگر شائقین کا شور اس قدر بڑھا کہ بالآخر وزیراعظم بینظیر بھٹو کو میانداد سے فیصلہ واپس لینے کی درخواست کرنا پڑ گئی۔

ورلڈ کپ 2011 کے بعد شاہد آفریدی نے بھی ہیڈ کوچ وقار یونس اور چئیرمین اعجاز بٹ سے اختلافات کی بنیاد پہ مشروط ریٹائرمنٹ لی مگر پھر ذکا اشرف سے ’مثبت‘ ملاقات کے نتیجے میں وہ بھی ملک کی خدمت کے لیے حاضر ہو گئے۔

Imad
Getty Images

کیا پاکستان کو عماد اور عامر کی ضرورت تھی؟

محمد عامر اور عماد وسیم نے تو پاکستان کی خاطر اپنی ریٹائرمنٹس واپس لی ہیں مگر سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا پاکستان کو بھی ان کی ضرورت تھی؟

نامور کرکٹ مبصر عثمان سمیع الدین سو فیصد قائل نہیں ہیں کہ پاکستان کو بھی ان دونوں کھلاڑیوں کی ضرورت تھی۔ تاہم ان کے خیال میں پی ایس ایل جیسے ہائی پروفائل ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی نے ان دونوں کا کیس مضبوط کیا ہے کہ محمد عامر پاور پلے اور ڈیتھ اوورز کے اچھے بولر ہیں اور مختصر فارمیٹ میں پاکستان کا حالیہ ریکارڈ بھی خوش کُن نہیں رہا ہے۔

’اسی طرح شاداب خان کی فارم بھی گزشتہ چند مہینوں میں حسبِ توقع نہیں رہی۔ سو، ایسے میں عماد وسیم پاکستان کے لیے ایک اچھا انتخاب ہو سکتے ہیں۔‘

سابق کپتان مصباح الحق بھی اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ شاداب کی غیر مستقل فارم کے ہنگام، عماد وسیم کا تجربہ اور حالیہ کارکردگی پاکستان کے لیے سود مند ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں ابھی تک جتنے بولر پاکستان کے لیے کھیل رہے ہیں، وہ ’ون ڈائمینشل‘ ہیں کہ اگر کوئی پاور پلے میں اچھا ہے تو ڈیتھ اوورز میں بہتر ریکارڈ نہیں رکھتا۔ ایسے میں یہ دونوں اچھے ’بیک اپ‘ آپشنز ہو سکتے ہیں کہ یہ اننگز کے مختلف مراحل میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

نوجوان ٹیلنٹ کے لیے منفی پیغام؟

پچھلے دو سال میں پاکستان نے کئی نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دئیے ہیں جس کے باعث متوقع یہی تھا کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نئی شباہت کی ٹیم کے ساتھ مقابلے میں اترے گا۔ مگر ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی واپسی کیا نوجوان کھلاڑیوں کے لیے کوئی منفی پیغام ہے؟

مصباح الحق کہتے ہیں کہ پاکستان نے نوجوان ٹیلنٹ کو خاصے مواقع دئیے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں رہا۔ اسامہ میر، محمد حسنین اور وسیم جونئیر اس طرح سے ڈلیور نہیں کر پائے، سو ان کے خیال میں دو تجربہ کار کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کے لیے واپس لانے کا فیصلہ اس تناظر میں بہتر تھا کہ بورڈ کی جانب سے انا کو برطرف رکھ کر ملک کی خاطر سوچا گیا۔

مگر عثمان سمیع الدین کہتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ سے پی سی بی جس انتظامی بے یقینی کا شکار تھا، اس کے بعد نئے چئیرمین کی جانب سے، میڈیا کی لہر پہ ایسا ’پاپولسٹ‘ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ وہ حارث رؤف کی مثال دیتے ہیں کہ جس چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے حارث رؤف کا سینٹرل کنٹریکٹ معطل کیا تھا، انھوں نے ہی چئیرمین محسن نقوی کے پہلو میں بیٹھ کر اس کی بحالی کا اعلان کیا۔

عماد
Getty Images

ڈریسنگ روم کے ماحول پہ اثرات

نہ صرف محمد عامر اور عماد وسیم ماضی میں انضباطی مسائل کے سبب خبروں میں رہے ہیں بلکہ ٹی وی مبصرین کی حیثیت میں، یہ موجودہ ٹیم کے کئی کھلاڑیوں بالخصوص بابر اعظم کو گہری تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جو بعض اوقات ذاتیات تک بھی پہنچی ہے۔ ایسے میں ان کی واپسی ڈریسنگ روم کے ماحول پہ کیا اثرات مرتب کرے گی؟

مصباح الحق کے خیال میں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب ایک بڑا مقصد سامنے ہو تو اس عظیم ہدف کے تعاقب میں ذاتی اختلافات پسِ پشت ڈالے جا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یقیناً اس طرح کی بیان بازی اور مخاصمت کا ایک منفی اثر تو پڑتا ہے مگر اب یہ پلیئرز اور منیجمنٹ پہ منحصر ہے کہ وہ کیسے آگے بڑھتے ہیں۔‘

عثمان سمیع الدین کے خیال میں بھی یہ منیجمنٹ پہ منحصر ہے کہ اگر یہ ورلڈ کپ میں وہی پرانے زمانے کے سڑے ہوئے منیجرز لے گئے جو محض کھلاڑیوں کو ڈیلی الاؤنس، کپڑوں اور ٹکٹ کی فراہمی تک محدود رہتے ہیں تو پھر یقیناً مسائل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماڈرن منیجمنٹ اور کوچز ہمراہ ہوئے تو ایسا مسئلہ نہیں ہو گا۔

عامر
Getty Images

قیادت پہ قیاس آرائیاں

ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کی ناگفتہ بہ کارکردگی کا ملبہ کپتان پہ ڈالتے ہوئے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف نے بابر اعظم کو قیادت سے مستعفی ہونے پہ مجبور کیا تھا۔ لیکن ان کے مقرر کردہ کپتان شاہین آفریدی بھی نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں متاثر نہیں کر پائے اور حالیہ پی ایس ایل ایڈیشن میں بھی ان کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی۔

ایسے میں یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے کہ کیا ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم کی قیادت میں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ گو چئیرمین اسے سلیکشن کمیٹی کی صوابدید سے مشروط کر چکے ہیں مگر میڈیائی حلقوں میں پھر سے لابنگ کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

مصباح الحق کا ہمیشہ سے یہی ماننا رہا ہے کہ پاکستان میں بورڈ مینیجمنٹ کی تبدیلی اور ایک آدھ سیریز کی بنیاد پہ عجلت میں فیصلے لیے جاتے رہے ہیں جن سے نہ صرف تسلسل خراب ہوتا ہے بلکہ افراد کا اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے جذباتی فیصلوں کے منفی نتائج ہی برآمد ہوا کرتے ہیں۔ کوئی ایک واضح وژن ہونا چاہیے۔ جو بھی کرنا ہے، ایک بار طے کر لیا جانا چاہیے اور پھر اس فیصلے پہ قائم رہنا ضروری ہے۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.