فاطمہ بوش: بینکاک میں آرگنائزر کے خلاف احتجاج کرنے والی حسینہ مِس یونیورس بن گئیں

چند روز قبل مس یونیورس آرگنائیزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوات اِتسرا گریسل نے مس میکسیکو فاطمہ بوش کو سب کے سامنے ’ڈمی‘ قرار دیا تھا اور وضاحت دینے پر سکیورٹی کو بلوا کر انھیں چپ رہنے کے لیے کہا گیا۔
مس یونیورس
Getty Images

میکسیکو کی فاطمہ بوش کو بینکاک میں ایک تقریب میں مس یونیورس کا تاج پہنا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک غیر معمولی سکینڈل سے بھرے سیزن کا اختتام بھی ہوا۔

چند روز قبل مس یونیورس آرگنائیزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوات اِتسرا گریسل نے مس میکسیکو فاطمہ بوش کو سب کے سامنے ’ڈمی‘ قرار دیا تھا اور وضاحت دینے پر سکیورٹی کو بلوا کر انھیں چپ رہنے کے لیے کہا گیا۔

مقابلہ حسن کے لیے دنیا بھر سے آنے والی امیدواروں نے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ناوت اِتسرا گریسل کے رویّے پر احتجاج کیا اوراُن کے خلاف مشترکہ طور پر تقریب سے واک آؤٹ کیا تھا۔

نوات نے ان سے کہا تھا ’اگر کوئی مقابلہ جاری رکھنا چاہتا ہے تو بیٹھ جائے۔ اگر آپ باہر نکلتی ہیں تو باقی لڑکیوں کا مقابلے جاری رہے گا۔‘

اس ڈرامائی موڑ کے ایک ہفتے بعد مقابلے کے دو ججوں نے استعفیٰ دے دیا تھا اور ان میں سے ایک نے منتظمین پردھاندلی کا الزام لگایا تھا۔

یہ سب ایسے وقت میں ہوا، جب دنیا کے سب سے طویل عرصے تک چلنے والے مقابلہ حسن کو آج کے دور سے مطابقت اور ناظرین کی کم ہوتی تعداد کے حوالے سے پہلے ہی تنقید کا سامنا ہے۔

مس میکسیکو کی جیت کی خبر سامنے آنے کے بعد آن لائن لوگوں کی رائے میں تقسیم دیکھی گئی۔

میکسیکو کے بہت سے لوگوں نے فاطمہ بوش کی جیت کا جشن منایا، جیسے بہت سے لوگوں نے ان کے واک آؤٹ کی تعریف کی تھی۔

لیکن کچھ لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا اس مقابلے کے منتظمین نے حالیہ سکینڈل کو دبانے کے لیے مس میکسیکو کو یہ تاج پہنایا۔

اس مقابلے میں دوسرے نمبر پر مس تھائی لینڈ پراوینر سنگھ جبکہ تیسرے نمبر پر مس وینزویلا سٹیفنی عباسلی رہیں۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر مس فلپائن ما آہتسا منالو اور مس آئیوری کوسٹ اولیویا یاس تھیں۔

Five beauty queens standing in a row against a red background
Getty Images
مِس یونیورس کی فائنلسٹس سٹیج پر موجود

بینکاک میں ڈرامہ

رواں مہینے کے اوائل میں مقابلہ حسن سے قبل ایک تقریب میں تھائی لینڈ میں پروگرام آرگنائزر نوات نے فاطمہ کو مقابلے کے فروغ کے لیے مواد پوسٹ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

جب فاطمہ نے اس پر اعتراض اُٹھایا تو انھیں پنڈال سے باہر نکالنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کو بُلا لیا گیا اور ان کی حمایت کرنے والوں کو مقابلے کے لیے نااہل قرار دینے کی دھمکی دی گئی۔ اس وقت فاطمہ پروگرام چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور دیگر لوگ بھی ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے تقریب سے باہر نکل گئے تھے۔ دنیا بھر کی شہ سرخیوں میں اس واقعے کو جگہ ملی تھی۔

مِس یونیورس کا مقابلہ منعقد کروانے والی تنظیم نے بھی ناوت کے ’ناروا‘ سلوک کی مذمت کی تھی۔ میکسیکو سے ویڈیو کال کے ذریعے راؤ روچا نے اس معاملے پر اپنے بزنس پارٹنر کو خاموشی اختیار کرنے کو بھی کہا تھا۔

میکسیکو کی صدر کلوڈیا شینبوم نے بھی اس وقت فاطمہ کو سراہا تھا اور کہا تھا کہ جارحیت کے خلاف ’خواتین کو ایسے ہی مثال‘ قائم کرنی چاہیے۔

جمعے کو نوات نے فائنل میں ناظرین کے ہمراہ بیٹھ کر تصاویر بنائی تھیں اور انسٹاگرام پر بھی لگائی تھیں، وہ اس موقع پر سٹیج پر نہیں تھے۔

جب فاطمہ کے سر پر مِس یونیورس کا تاج سجایا گیا تو نوات نے اپنے تھائی سوشل میڈیا پر ایک لائن شیئر کی کہ ’اربوں الفاظ جو کہے نہیں جا سکتے۔‘

انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’جہاں تک نیتجے کا تعلق ہے، ہم گھروں میں بیٹھے ناظرین کو جج سمجھتے ہیں اور وہ تمام لوگ خود ہی تمام معاملے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ بینکاک میں ہونے والے واقعے کے سبب فاطمہ کو مِس یونیورس کا تاج جیتنے میں مدد ملی۔ چوتھی بار میکسیکو سے تعلق رکھنے والی کوئی خاتون مِس یونیورس بنی ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’اگلے برس جو بھی مقابلہ چھوڑ کر جائے گا وہ جیتے گا۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ان کو جتوانا ہی تھا کیونکہ ان کے ساتھ پہلے ناانصافی کی گئی تھی، ایسا کرنے کا مقصد مِس یونیورس کے مقابلے کو بچانا ہے۔‘

بی بی سی نے مِس یونیورس کا مقابلہ منعقد کروانے والی تنظیم سے اس معاملے پر تبصرے کی گزارش کر رکھی ہے۔

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تنظیم نے لکھا فاطمہ کے ’وقار، طاقت اور ہمت نے دنیا بھر کے دلوں میں گھر کر لیا۔ ‘

بینکاک میں تنازعے کے بعد اس مقابلے کے دو ججز نے استعفی دے دیا تھا اور آرگنائزرز پر سلیکشن کے عمل کے دوران دھاندلی کرنے کا الزام لگایا تھا۔

لبنانی فرانسیسی موسیقار عمر ہرفوش نے آٹھ رُکنی جیوری سے استعفیٰ دیا تھا اور انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ ایک ’علیحدہ جیوری‘ نے فائنل سے پہلے ہی فائنلسٹس طے کر لیے ہیں۔

کچھ ہی گھنٹوں بعد سابق فرانسیسی فٹ بال کھلاڑی کلوڈ میکلیلے نے بھی ’ناگزیر ذاتی وجوہات کے بنا پر‘ استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔

تاہم مِس یونیورس کے آرگنائزرز نے عمر ہرفوش کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’باہر کسی بھی گروہ کو فائنلسٹس کا انتخاب کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔‘

جمعے کو بھی فاطمہ کی جیت کے اعلان سے قبل ایک بار پھر عمر ہرفوش نے اپنے الزامات کو دُہرایا تھا۔

اسی مقابلے کے دور ایک اور واقعہ منظرِ عام پر آیا تھا جب بدھ کی رات کو مِس جمیکا حادثاتی طور پر سٹیج سے گر گئیں تھیں اور انھیں سٹیچر پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئی تھیں۔

آرگنائزرز نے بعد میں کہا تھا کہ ’ان کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی اور ہسپتال میں ان کی اچھی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔‘

مِس یونیورس کے مقابلے کا مستقبل کیا؟

مِس یونیورس کے مقابلوں کی شروعات سنہ 1952 میں ہوئی تھی اور فاطمہ یہ تاج اپنے سر پر سجانے والی 74ویں حسینہ ہیں۔ اس مقابلے کو دورِ جدید میں بھی اپنا وجود برقرار رکھنے میں چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ یہ مقابلہ سال میں ایک ہی مرتبہ ٹی وی سکرینوں پر نظر آتا ہے لیکن اب یہ ایک ایسا میڈیا برانڈ بنتا جا رہا ہے جو ٹِک ٹاک کے لیے بھی تیار ہے۔

برسوں سے مِس یونیورس کا مقابلہ دیکھنے والے ناظرین کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اس کے شائقین سوشل میڈیا پر منتقل ہو رہے ہیں۔

ٹِک ٹاک اور انسٹاگرام پر ماضی میں مِس یونیورس کا تاج پہننے والی خواتین کے اپنے اکاؤنٹس ہیں جہاں فالورز کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ تمام لوگ اب ایک طرح سے انفلونسرز بن گئے ہیں۔

یہ ایک طرح سے ای کامرس کی دنیا ہے جہاں نوات کی گرینڈ انٹرنیشل کوئنز سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لائیو براڈکاسٹ کے دوران مرچنڈائز بھی فروخت کریں اور ایسی ہی توقع انھیں مِس یونیورس کے مقابلے میں حصہ لینے والوں سے بھی تھی۔

لیکن لاطینی امریکہ میں حسیناؤں کو آج بھی ٹی وی پر بڑی شخصیات سمجحا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ وہاں مِس یونیورس کا ایک ریئلٹی شو بھی ہوا تھا جہاں ایک ڈمینیکن خاتون کو مِس یونیورس لاٹینا کا خطاب ملا تھا۔

Beauty queens congratulating the newly-crowned Miss Universe
Getty Images
’اگر آپ مقابلے میں حصہ لینے والی خواتین کو طاقتور نہیں بنا رہے تو مِس یونیورس کے کوئی معنی نہیں‘

یہ ریئلٹی شو آج بھی لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بہت مقبول ہے، جہاں ایسے مقابلے خواتین کو سیلیبریٹی بننے اور غربت سے نکلنے میں مدد کرتے ہیں۔

تاہم اس شو پر تنقید بھی ہوتی ہے اور الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس مقابلے میں خواتین کے جسم کو ایک نمائشی شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اسی سبب اس شو کے منتظمین نے حالیہ برسوں میں کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ یہاں سنہ 2025 میں زیادہ تر امیدوار بکنی ہی پہنتی تھی تاہم قدامت پسند ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کو پورا جسم ڈھکنے کی بھی اجازت تھی۔

اس شو کی سابق صدر مِس شوگرت کہتی ہیں کہ ’یہ شو ہر کسی کے لیے نہیں اور ہمیشہ کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو ہم سے اختلاف کریں گے لیکن جب تک ہماری روایات قائم ہیں میرے خیال میں ایسے مقابلوں کا ہمیشہ ہی ہمارے معاشرے میں ایک کردار رہے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کا مقصد خواتین کو طاقتور کو بنانا ہے۔

’اگر آپ مقابلے میں حصہ لینے والی خواتین کو طاقتور نہیں بنا رہے تو مِس یونیورس کے کوئی معنی نہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US