سید صاحب کا مقام ولایت

حکم ہوا ایک بندئہ عاصی کو کہ ’’ القلم‘‘ کے خصوصی شمارے کیلئے اس عنوان پر کچھ لکھے ۔ علم و عمل سے تہی دامن اور ولایت کی ابجدسے ناواقف شخص لکھے تو کیا لکھے ‘ اللہ تعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی یہ بات یاد آگئی کہ ’’ ولی راولی می شناسد ‘‘ یعنی ایک ولی کا صحیح مقام و مرتبہ دوسرا ولی ہی پہچانتا ہے ‘ یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ‘ اسی کے پیش نظرکہ حضرت سید صاحب (رح) کے بارے میں آپ کے دور کے اولیائ اللہ کیا کہتے ہیں اور آپ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے ‘ یہ کچھ سمجھنے کیلئے آپ کی سوانح کا مطالعہ شروع کیا تو پتہ چلا کہ اس سلسلے کے واقعات بھی اتنے ہیں کہ اُن سے پوری ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ اس لیے مجبوراً چند ایک مثالوں پر قناعت کر کے قارئین کی خدمت میں یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے کہ ’’ قیاس کن زگلستان من بہارِمرا‘‘
ہاں ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ ولی کسے کہتے ہیں اور مقام ولایت کیا ہوتا ہے ؟ کیونکہ ہم ایک ایسے دور سے گزررہے ہیں جس میں الفاظ نے اپنی قدر وقیمت اور القابات نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے ۔ ولایت کا دارومدار خوفِ خدا ‘ اتباع رسول اور فکرِ آخرت کے بجائے عجیب و غریب حرکات اور شعبدہ بازی پر رہ گیا ہے ۔ کوئی بھی شخص گلے میں مالا ڈال کر ‘ رنگین لباس زیب تن کر کے اور مضحکہ خیز ہیئت کذائیہ بنا کر اپنے آپ کو ولی کہلاسکتا ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اولیائ اللہ کی علامات کو بڑی وضاحت سے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کر دیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الا ان اولیا ئ اللہ لا خوف علیھم ولا ہم یحزنون
الذین اٰمنوا وکانوا یتقون ﴿سورۂ یونس ۲۶۔۳۶﴾
﴿یاد رکھو ! جو اللہ کے دوست ہیں ‘ اُن کو نہ کوئی خوف ہو گا ‘ نہ وہ غمگین ہوں گے ، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کئے رہے ﴾

اس آیت مبارکہ نے بات واضح کر دی کہ ایمان اور تقویٰ ہی معیار ِ ولایت ہیں اور جو شخص ان دونوں میں جتنا ترقی کرتا جائے گا ‘ وہ اتنا ہی ’’ پہنچا ہوا ‘‘ ولی ہو گا ۔ امیر المومنین حضرت سید احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و تقویٰ دونوں کا وافر حصہ عطافرمایا تھا ‘ جیسا کہ ان کی کتاب ِ زندگی کے ایک ایک ورق سے عیاں ہے اور عیاں راچہ بیاں ؟ آئیں ! اب وقت کے اس عظیم ولی کے بارے میں اہلِ فضل و کمال کی شہادت ملاحظہ فرمائیں :

اکابرین وقت کی گواہی :.
مولانا عبدالحی اور مولانا اسمٰعیل خاندانِ ولی اللّہی کے چشم و چراغ تھے اور شاہ عبدالعزیز (رح) شاہ عبدالقادر (رح) اور شاہ رفیع الدین کے بعد ہندوستان کے ممتاز ترین علمائ میں ان کا شمارتھا ، علمی تبحر رشد و صلاحیت اور تقویٰ و للّٰہیت میں اپنے ہم عمروں اور اقران و امثال میں ممتا ز تھے ، ان کی علمی عظمت اور صحیح منزلت کا اندازہ شاہ عبدالعزیز (رح) کے اس خط سے ہو گا ، جو آپ نے منشی خیر الدین کو لکھنؤ حج کے متعلق لکھا ہے ، اس میں آپ نے مولانا عبدالحی کو شیخ الاسلام اور مولانا اسمٰعیل کو حجۃ الاسلام کے لقب سے یاد کیا ہے ‘ اور دونوں کو تاج المفسرین ، فخر المحد ثین سرآمدِ علمائے محققین کا خطاب دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات تفسیر و حدیث‘فقہ و اصول ، منطق وغیرہ میں اس فقیر سے کم نہیں ہیں ‘ جناب باری کی جو عنایت ان دونوں بزرگوں کے شاملِ حال ہے ‘ اس کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا ، ان دونوں کو علمائے ربانی میں شمار کرو اور اشکال حل نہ ہوں ‘ ان کے سامنے پیش کرو ، بظاہر ان کلمات سے اپنی تعریف نکلتی ہے لیکن امر حق کا اظہا ر واقفوں پر واجب ہے۔

ایک روز مولانا عبدالحی نے اور ان کے بعد مولانا اسمٰعیل نے سید صاحب (رح) سے بیعت کی درخواست کی اور دونوں حلقۂ ارادت اور سلکِ بیعت میں منسلک ہو گئے ، ان کی بیعت کا واقعہ اور اس کا سبب مختلف کتابوں میں مختلف طریقے پر بیان ہوا ہے ، اس سلسلے میں سب سے مستند اور مفصل روایت وہ ہے ‘ جو مولانا کرامت علی جونپوری نے خود مولانا عبدالحی کے حوالے سے بیان کی ہے ۔
رسالہ ’’ نورٌ علیٰ نور‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ اس حکایت سننے سے پہلے یاد رکھو کہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز قدس سرہ ، حضرت سید احمد صاحب (رح) کو ان کے ابتدائے وقت سے ’’ میر صاحب‘‘ کہا کرتے تھے ، اور حضرت مولانا عبدالحی صاحب(رح) اور ہم سب معتقد لوگ ’’ میاں صاحب‘‘ کہا کرتے تھے ، اور مولانا عبدالحی مولانا محمد اسمٰعیل کو میاں محمد اسمٰعیل کہا کرتے تھے ، چونکہ اس حکایت کو ہم بجنسہٰ لفظ بہ لفظ بیان کریں گے ‘ اور یہ لفظیں اس میں آویں گی ، اس واسطے ان لفظوں کے یاد رکھنے کو کہا ‘ اب وہ حکایت سنو ۔

ایک روز اس عاجز مسکین نے حضرت عالمِ ربانی مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ آپ جو اس قدر میاں سے اعتقاد رکھتے ہیں ، اور روپے پیسے کپڑے وغیرہ دنیاوی چیزوں کو چھوڑکے میاں صاحب کی صحبت اختیار کئے ہوئے ہیں اور آپ کے بدن پر جو کپڑا ہے ‘ اس کے سوا آپ کے پاس کوئی کپڑا بھی نہیں اور آپ جب میاں صاحب کے رو برو بات کرتے ہیں ‘ تو ترساں و لرزاں رہا کرتے ہیں ‘ تو للہ آپ ہم سے سچ بیان کیجئے کہ آپ نے میاں صاحب سے کیا پایا جو اپنا حال ایسا بنایا ۔

تب مولانا مغفور نے فرمایا کہ ان شائ اللہ تعالیٰ میں سچ بیان کروں گا ، سنو ‘ میرا یہ حال تھا کہ میں سلوک الی اللہ اور مشاہدہ حاصل کرنے کا بڑا مشتاق تھا ‘ تب میں نے مولانا شاہ عبدالعزیز قدس سرہ سے عرض کیا کہ مجھے آپ سلوک الی اللہ تعلیم کیجئے اور اس کے قبل میں بہت سے ہندی اور ولایتی مرشدوں سے توجہ لے چکا تھا ، مگر میرا مقصود حاصل نہ ہو اتھا ، تب آپ نے مجھ کو حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کے پاس بھیجا ، وہاں بھی چند روز توجہ لیتا رہا ، مگر میرا مقصد حاصل نہ ہوا، تب میں نے حضرت مولانا سے پھر عرض کیا کہ یہ خادم حضور کی توجہ کا محتاج ہے ‘ اور حضور دوسرے مقام میں بھیجتے ہیں ‘ ہم کو آپ خود تعلیم کیجئے، تب حضرت مولانا نے فرمایا کہ میاں میں بہت بڈھا اور کمزور ہوا اور مجھ میں بہت دیر تک بیٹھنے کی طاقت نہیں ‘ یہ مقصد تمہارا میر احمد صاحب سے حاصل ہو گا تم ان سے بیعت کرو‘ تب اس جناب کا یہ فرمانا مجھ کو بہت شاق گزرا اور میں ناراض ہو کر چپ کر رہا ، پھر کئی بار اور بھی عرض کیا ، وہی جواب پایا ، آخر کو بعد چند رو ز کے یہ واقعہ درپیش ہوا کہ میں اور حضرت میاں صاحب اور میاں محمد اسمٰعیل مدرسے کے ایک ہی مکان میں رہا کرتے تھے ، ایک شب کو بعد عشائ کے جب ہم تینوں شخص پلنگ پر سوئے ، تب میاں صاحب نے فرمایا ’’ مولانا مجھ کو حضرت رب العالمین نے محض اپنے فضل و کرم سے بطور الہام کے خبر دی ہے کہ فلانی تاریخ فلانے سفر میں تو جاوے گا ، فلانے مقام میں یہ ہو گا ، فلانے مقام میں وہ ہو گا اور اس قدر لوگ مرید ہوں گے وعلیٰ ہذا القیاس سب باتیں بیان کیں ‘ پھر دوسرے روز بھی ایسی ہی عجیب و غریب باتیں بیان کیں ، اسی طرح سے کئی روز تک مکہ ٔ معظمہ کے سفر اور جہاد کے سفر اور جہاد کے واقعات کا بیان بہ تفصیل تمام فرمایا ، تب ہم نے اور میاں محمد اسمٰعیل نے مشورہ کیا کہ اگر یہ سب باتیں سچ بیان کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ بہت بڑے شخص اور قطب ہیں ‘ ان سے کچھ فیض لینا بہت ضروری ہے ‘ سوآئو ، کسی بات میں ان کاامتحان کریں ‘ تب میاں محمد اسمٰعیل نے کہا کہ آپ ہم سے بڑے ہیں ‘ آپ ہی تجویز کرکے کسی بات میں امتحان کیجئے ۔ آخر کو جب پھر رات کو میاں صاحب نے پکارا کہ مولانا ! تب ہم نے عرض کیا کہ حضرت ! آپ کی بزرگی میں کچھ شبہ نہیں ‘ مگر ہم کو ان سب باتوں سے کیا فائدہ ؟ کچھ ہم کو عنایت کیجئے ، تب فرمایا کہ مولانا کیا مانگتے ہو؟ تب ہم نے کہا کہ حضرت ہم یہی مانگتے ہیں کہ جیسی نماز صحابہ کرام (رض) ادا کرتے تھے ‘ وہی ہی دو رکعت ہم سے ادا ہو ‘ یہ کہنا اور میاں صاحب ایک بارگی خاموش ہو گئے اور اس روز پھر کچھ نہ بولے‘ تب ہم لوگوں نے جانا کہ فقط یہ زبانی باتیں تھیں ‘ اصل باتوں سے ان کو کچھ علاقہ نہیں ! مگر ہمیشہ کی دوستی اور صحبت کی مروت سے ہم لوگ کچھ نہ بولے کہ اب شرم دنیا کیا ضرور ‘ اور چپ کر کے سو رہے ‘ پھر آدھی رات کے کچھ قبل یا بعد حضرت میاں صاحب نے پکارا ’’ مولانا‘‘ اس پکارنے سے مجھ کو قشعر یرہ ہوا اور بدن پر روئیں کھڑے ہوگئے اور اس جناب سے مجھ کو بڑا اعتقاد آگیا تب میں نے جواب میں کہا ’’ حضرت !‘‘ تب فرمایا کہ جائو ’’ جائو ‘ اس وقت اللہ کے واسطے وضو کرو ‘‘ تب میرے بدن پر پھر قشعریرہ ہوا اور میں نے کہا کہ بہت خوب ! دو تین قدم چلا تھا کہ پھر پکارا ’’ مولانا سن لو !‘‘ میں پھر کے حضرت کے پاس حاضر ہوا ، فرمایا ’’ تم نے خوب سمجھامیں نے کیا کہا ؟ میں نے کہا کہ اللہ کے واسطے وضو کر و ‘‘ پھر میں نے کہا ’’ بہت خوب‘‘ اور چلا ‘ دو تین قدم چلا تھا کہ پھر پکارا اور اسی طرح فرمایا ، اسی طرح تین بار کیا ، اور تیسری بار جا کے میں وضو کرنے لگا تو ایسا حضور دل اور حق سبحانہ کے خوف سے میں نے ادب کے ساتھ وضو کیا کہ ایسا وضو کبھی نہ کیا تھا ، پھر وضو کر کے حضرت کے حضور میں حاضرہوا ، فرمایا کہ جائو اللہ رب العالمین کے واسطے اس وقت دو رکعت نماز پڑھو ‘‘ تب میرے بدن پر قشعریرہ ہوا ‘ اور نماز کے واسطے چلا ، دو تین قدم چلا تھا کہ پھر پکارا اور میں حضور میں حاضر ہوا ، فرمایا کہ ’’ تم نے خوب سمجھایا نہیں ؟ میں نے کہا کہ جائو اس وقت اللہ رب العالمین کے واسطے دو رکعت نماز پڑھو ‘‘ میں نے کہا کہ ’’ بہت خوب ‘‘ ! اور نماز کے واسطے چلا ، پھر تیسری بار بلایا اور ویسا ہی سمجھا دیا ، تب میں نے ایک گوشے میں نماز شروع کی تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی ایسا مشاہدۂ جلال میں غرق ہوا کہ ہوش نہ باقی رہا ، اور اس قدر رویا کہ آنسو سے داڑھی تر ہو گئی اور اس قدر نماز میں غرق ہو گیا کہ دنیا کی یاد مطلق نہ باقی رہی اور نہایت خوف اور لذت کے ساتھ میں نے دو رکعت نماز پڑھی ‘ جب دو رکعت پڑھی تو خیال کیا کہ میں نے سورہ فاتحہ نہ پڑھا تھا ، پھر سلام پھیر کے دو بارہ دوسری بار دورکعت کی نیت کی ، جب پڑھ چکا تو خیال کیا کہ فاتحہ میں سورہ کو ضم نہ کیا تھا ، پھر شروع کیا اسی طرح ہر بار ایک ایک واجب کے ترک کرنے کا خیال آتا تھا ‘ اور نماز کو ناقص سمجھ کے دہراتا تھا ، واللہ اعلم ، سو رکعت یا زیادہ کم پڑھا ہو گا کہ صبح صادق کا وقت قریب ہوا ، پھر آخر کو نا چار ہو کے سلام پھیرا اور بہت شرمندہ ہوا کہ میری استعداد اس طرح کی ناقص ہے کہ دو رکعت پوری بھی حضور دل کے ساتھ نہ پڑھ سکا اور اتنے بڑے کامل شخص کو میں نے آزمایا ، اب اگر وہ پوچھیں کہ تم نے دو رکعت اللہ کے واسطے پڑھا تو میں کیا جواب دوں گا ؟ میں تو حضور ِ دل کے ساتھ جیسا کہ حق نماز پڑھنے کا ہے ‘ ویسا دو رکعت بھی پڑھ نہ سکا ، اسی سوچ میں شرم کے دریا میں غرق ہو گیا اور اپنے قصور کا معترف ہو کے اللہ سبحانہ کے خوف سے استغفر اللہ ! استغفر اللہ ! کہنا شروع کیا ‘ جب اذان ہوئی تب مجھ کو ہوش ہوا اور یاد پڑا کہ صحابۂ کرام کا یہی حال تھا کہ تمام رات عبادت کرتے اور پچھلی رات کو استغفار کرتے تھے ، ان کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ والمستغفرین بالاسحار‘‘ اور سوچا کہ بلاشبہ یہ بڑے کامل مرشد ہیں کہ ان کے کلام سے میرا مقصد پورا ہوا اور جو نعمت مدت دراز کی محنت سے حاصل نہ ہوئی تھی ، سو ان کے ایک دم کے فرمانے سے حاصل ہوئی ، پھر میں مسجد میں گیا اور قبل نماز فجر کے میں نے حضرت میاں صاحب سے بیعت کیا اور صبح کی نماز کے بعد میاں محمد اسمٰعیل سے میں نے رات کا قصہ پورا بیان کیا ، کیونکہ وہ مجھ کو صادق جانتے تھے ، انہوں نے بھی حضرت میاں صاحب سے بیعت کیا ۔
﴿باقی صفحہ7بقیہ نمبر1﴾

پھر میں دن کو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز (رح) کے پاس گیا اور رات کا قصہ بیان کیا اور اپنے بیعت کرنے کا بیان کیا ‘ آپ نے فرمایا ’’ بارک اللہ ! بارک اللہ ! خوب کیا ! میاں ‘ میں تم سے اسی واسطے کہا کرتا تھا، کیوں میاں ‘ تم نے میر صاحب کا کمال دیکھا ؟‘‘ تب میں نے عرض کیا کہ ’’حضرت میں نے بہت درویشوں کی خدمت کی اور بہت طریقوں کے موافق میں نے شغل اور مراقبہ کیا ، میرا مقصد کبھی نہ حاصل ہوا ، حضرت سید صاحب (رح) نے ایک بات زبان سے کہہ دی اور میں اپنا دلی مقصد پا گیا ، حضرت یہ کون سا طریقہ کہلاتا ہے ؟‘‘ تب فرمایا کہ میاں ایسے لوگ کسی طریقے کے محتاج نہیں ہوتے ایسے لوگ جو زبان سے کہیں وہی طریقہ ہے ایسے لوگ خود صاحبِ طریقہ ہوتے ہیں اور ایسے لوگ طریقے نکالتے ہیں ‘‘ حضرت مولانا کے فرمانے سے اور بھی زیادہ مجھ کو حضرت میاں صاحب کے مرشد صاحب ِ طریقہ ہونے کا یقین ہوا اور میرا اعتقاد اور بھی زیادہ ہوا ، اس سبب سے میں میاں صاحب کی غلامی میں حاضر ہوں اور ان کی غلامی کے قابل بھی میں اپنے تئیں نہیں پاتا ‘‘ تمام ہوئی تقریر مولانا عبدالحی مرحوم کی ‘‘ ۔

برادرِ اکبر مولانا محمداسحق کی گواہی :.
آپ (رح) کے برادرِ معظم مولانا سید محمد اسحق آپ کی ملاقات کے لئے دہلی تشریف لائے اور آٹھ برس کے بعد دو بچھڑے ہوئے بھائی ملے ، مولانا نے فرمایا کہ’’ مجھے نواب صاحب کے لشکر سے تمہاری واپسی دہلی کا علم ہوا ، مجھ کو اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو ، تم کہیں دور چلے جائو ، پھر ملاقات ہونی دشوار ہو ، اس خیال سے میری طبیعت کو قرار نہ ہوا ، میں جلد محسن خاں کو ساتھ لے کر وہاں سے اِدھر روانہ ہوا ‘‘ سید صاحب (رح) نے ان کو اطمینان دلایا اور فرمایا کہ ان شائ اللہ جلد وطن آئوں گا ۔

مولانا سید اسحق وطن واپس ہوئے تو لکھنؤ میں اعزا اور برادری کے جو لوگ موجود تھے ، ملاقات کے لئے آئے اور سید صاحب (رح) کا حال پوچھا ، مولانا نے فرمایا کہ : ’’ عنایت الٰہی سے سید احمد کو وہ رتبہ حاصل ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا ہوں ‘ اپنی تو عمر میں نہ اس رتبے کا آدمی دیکھا ہے ‘ نہ سنا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت بے غایت سے ایسا علم باطنی ان کو عطا فرمایا ہے کہ دہلی کے تمام علمائ اور فضلائ ان کی طرف رجوع ہیں ‘ اور ان کی تقریر کے آگے کوئی دم نہیں مار سکتا اور ہم سے مولویوں کا وہاں کیا شمار کہ ان کے آگے بولیں اور چون و چرا کا لب کھولیں ، ان کو علم وہبی ہے ، کسبی نہیں ہے ‘‘

یہ سن کر برادری کے لوگ ہنسے اور کہنے لگے کہ وہ آپ کے بھائی ہیں جو چاہیے ، فرمائیے ہم ان کو خوب جانتے ہیں ‘ان میں یہ مادہ اور لیاقت کہاں ؟ مولانا نے فرمایا کہ میں نے مبالغے سے کام نہیں لیا ، جب وہ آئیں گے تو تم خود دیکھ لو گے ۔

ایک عارف کی زبان سے سید صاحب کی عظمت کا اعتراف :.
جب فنونِ حرب کی مشق و تعلیم میں زیادہ انہماک ہوا اور زیادہ تر وقت اسی میں صرف ہونے لگا ، یہاں تک کہ سلوک کے کاموں میں کمی ہونے لگی تو رفقا نے آپس میں گفتگو کرنی شروع کی اور مشورہ کیا کہ مولانا محمد یوسف صاحب پھلتی اس بارے میں سید صاحب(رح) سے گفتگو کریں اور جماعت کے ان خیالات کی اطلاع دیں ، مولانا نے سید صاحب (رح) سے عرض کیا ، سید صاحب (رح) نے آپ کو جواب دیا کہ ’’ ان دنوں اس سے افضل کام ہم کو درپیش ہے ‘ اسی میں ہمارا دِل مشغول ہے ، وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیاری ہے ‘ اس کے سامنے اس حال کی کچھ حقیقت نہیں ‘ وہ کام یعنی تحصیل علم سلوک اس کام کے تابع ہے ‘ اگر کوئی تمام دن روزہ رکھے ‘ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزارے اور نوافل پڑھتے پڑھتے پیروں میں ورم آجائے اور دوسرا شخص جہاد کی نیت سے ایک گھڑی بھی بارود اڑائے تاکہ کفار کے مقابلے میں بندوق لگاتے آنکھ نہ جھپکے تو وہ عابد اس مجاہد کے رتبے کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا ، اور وہ کام ﴿سلوک و تصوف ﴾ اس وقت کا ہے ، جب اس کام﴿ تیاری جہاد﴾ سے فارغ البال ہو ، اب جو پندرہ سولہ روز سے نماز یا مراقبے میں دوسرے انوار کی ترقی معلوم ہوتی ہے ‘ وہ اسی کاروبار کے طفیل سے ہے ، کوئی بھائی جہاد کی نیت سے تیر اندازی کرتا ہے ، کوئی بندوق لگاتا ہے ، کوئی پَھری گدکا کھیلتا ہے ، کوئی ڈَ نڈپیلتا ہے ، اگر ہم اس کام کی اس وقت تعلیم کریں ‘ تو ہمارے یہ بھائی اس کام سے جاتے رہیں ‘ یوسف جی ! تم خوداپنا حال دیکھو کہ گردن ڈالے ہوئے ایک عالم ِ سکوت میں رہتے ہو ، اسی طرح اور لوگ بھی کوئی کمبل اوڑھے مسجد کے کونے میں بیٹھا ہے کوئی چادر لپیٹے حجرے میں بیٹھا ہے ‘ کوئی جنگل جاکر مراقبہ کرتا ہے ، کوئی ندی کنارے گڑھا کھود کر بیٹھا رہتا ہے ‘ ان صاحبوں سے تو جہاد کا کام ہونا مشکل ہے ‘ تم ہمارے بھائیوں کو سمجھائو کہ اب اسی کام میں دل لگائیں ‘ یہی بہتر ہے ‘ حاجی عبدالرحیم صاحب سے مشورہ کر کے جواب دو ‘‘۔ حاجی عبد الر حیم صاحب نے جب سنا تو پہلے اپنا حال بیان کیا کہ جب مجھ کو حضرت سے بیعت نہ تھی اپنے مشائخ کے طورو طریق پر تھا ،چلہ کشی کرتا ،جو کی روٹی کھاتا تھا ،موٹے کپڑے پہنتا تھا ،صد ہا میرے مرید تھے ،اور جو درویشی کا طالب میرے پاس آتا ،اس کو تعلیم کرتا اور کسی سے کوئی غرض نہیں رکھتا تھاجو کوئی مطلب کے لیے چار کوس یا ایک منزل لے جانے کی درخواست کرتا ،فی اللہ چلا جاتا تھا ،اور میری نسبت کا طور یہ تھا کہ آدھ کوس یا کوس بھر سے کسی پر توجہ کی نظر ڈالتا تو اسی جگہ اس کو حال آجاتا تھا اور بعض بعض باتیں مجھ میں ان سے بڑھ کر تھی اور میں اس حال میں بہت خوش تھا اور میرے مریدوں میں بعض بعض صاحب تاثیر تھے ،باوجود ان سب باتوں کے جب اللہ تعالی نے ان سید صاحب (رح)کوسہارنپور پہنچایا اور مجھ سے ملایا اور مجھ کو توفیق دی کہ میں نے آپ کے د ست مبارک پر بیعت کی اور آپ کا طریقہ دیکھا ،اس وقت اپنے نزدیک مجھ کو یہ خیال ہوا کہ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو میری بری موت ہوتی ،میں نے اپنے سب مریدوں سے کہا اگر تم اپنی عاقبت بخیر چاہتے ہو تو ان سید صاحب (رح) کے ہاتھ پر بیعت یا اس عقیدے سے میری ہی بیعت کرو اور جو نہ کرے گا وہ جانے ،میںنے آگاہ کردیا ہے،اس کا مواخذہ قیامت کے روز مجھ سے نہیں ،پھر سب نے دوبارہ بیعت کی ،سو میں نے تمام عیش و آرام اور ناموس ونام چھوڑ کر سید صاحب (رح) کے یہا ں محنت ومشقت اور تنگی وکلفت اختیار کی اینٹیں بھی بناتا ہوں ،دیوار بھی اٹھا تاہوں،گھاس بھی چھیلتا ہو ،لکڑی بھی چیرتا ہو ،اور ہر طرح کے کام کرتا ہوں ،مگر اللہ تعالی نے اپنے فضل سے کاروبار کی بدولت جو نعمت دی اور خیروبرکت دی عطا کی ،اس کے دسویں حصے کے برابر اول معاملات کی تمام خیرو برکت کو نہیں پاتاہوں ،اگر ایسا نہ ہوتا تو راحت کو چھوڑ کر یہ محنت کیوں اختیار کی ؟

سو میری صلاح اس بارے میں یہی ہے کہ تم اپنا سار اکاروبار حضرت پر چھوڑ دو ،وہی جو بہتر جا ن کر تم کو فرمائیں ،اسی کو مانو اور اپنی بہتری اسی میں سمجھو اور اپنی ناقص رائے کو اس میں دخل نہ دو ۔

حاجی صاحب چونکہ فن سلوک اور قوت نسبت میں مسلم تھے ،اور مشہور شیخ اور عارف تھے اسلئے ان کی تقریر سن کر سب لوگ خاموش ہو گئے اور مقدمات جہاد میں دل وجان سے مشغول ہو گئے ،دن رات یہی مشغلہ تھا ،بھر ماری ،تیرا ندازی کرتے ،چورنگ لگاتے اور فنون سپہ گری کی پوری مشق کرتے تھے
٭٭٭
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 195086 views A Simple Person, Nothing Special.. View More