حقوق العباد

حقوق العباد سے ڈرنا

سلف صالحین کی عاداتِ مبارکہ میں سے یہ بھی تھا کہ وہ حقوق العباد سے بہت ڈرتے تھے خواہ معمولی سی چیز مثلاًکسی کی خلال یاسوزن ہی ہو تو اس سے بھی ڈرتے تھے۔ خصوصاً جب اپنے اعمال کو نہایت کم سمجھتے توان کے خوف و کرب کی کوئی نہایت نہ ہوتی تھی کہ ہمارے پاس تو کوئی ایسی نیکی نہیں جسے خصم کو اس کے حق کے بدلے قیامت کے دن دے کر راضی کیا جائے ۔ بسا اوقات کسی ایک ہی مظلمہ کے عوض میں ظالم کی تمام نیکیاں لیکر بھی مظلوم خوش نہ ہوگا۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو پوچھا: ''اتدرون من المفلس من امتی یوم القیامۃ'' کیا تم جانتے ہو کہ میری امّت میں سے قیامت کے دن مفلس کون ہوگا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم جس کے پاس درہم ودینار نہ ہووہ مفلس ہے ۔ تو آپ نے فرمایا:

''المفلس من یاتی یوم القیٰمۃ بصیام وصلاۃ وزکاۃ وحج ویاتی وقد شتم ھذا و اکل مال ھذا وسفک دم ھذا وضرب ھذا فیعطی ھذا من حسناتہ وھذا من حسناتہ فان فنیت قبل ای یقضی ما علیہ اخذ من خطایا ہم فطرح علیہ ثم قذف فی النار''

(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب تحریم الظلم،الحدیث:5281،ص1384،باختلاف
الالفاظ۔ تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص57 )

یعنی مفلس وہ شخص ہے کہ قیامت کے دن نماز روزہ زکوٰۃ حج لے کر آئے اور اس نے کسی کو گالی دی ہو ، کسی کا مال کھایا ہو، کسی کا خون کیا ہو، کسی کو مارا ہو (تو مدعی آجائیں اور عرض کریں کہ پروردگار اس نے مجھے گالی دی ، اس نے مجھے مارا ، اس نے میرامال کھایا، اس نے میرا خون کیا) تو حق سبحانہ وتعالیٰ اس کی نیکیاں ان مدعیوں کو دےد ے تو اگر نیکیاں ختم ہوجائیں کوئی نیکی باقی نہ رہے اور مدعی اگر باقی ہوں تو ان کے گناہ اس پر ڈالے جائیں گے۔ پھر اس کو دوزخ کا حکم دیا جائے گا اوروہ دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔یعنی حقیقت میں مفلس وہ شخص ہے کہ قیامت کے روز باوجود نماز روزہ حج زکوٰۃ ہونے کے پھر وہ خالی کا خالی رہ جائے ۔

حضرت عبداللہ بن انیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ وعم نوالہ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا کہ کوئی دوزخی دوزخ میں اور کوئی جنتی جنت میں داخل نہ ہو جب تک وہ حقوق العباد کا بدلہ نہ ادا کرے ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مماللعباد علیہم،ص58)

حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان نے ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کی پھر ستر سال عبادتِ الٰہی میں شب و روز لگاتا رہا، دن کو روزہ رکھتا ،رات کو جاگتا کسی سایہ کے نیچے آرام نہ کرتا ، نہ کوئی عمدہ غذا کھاتا۔ جب وہ مرگیا،اس کے بعض بھائیوں نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ خداعزوجل نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟اس نے کہا کہ خداعزوجل نے میرا حساب لیا پھر سب
گناہ بخش دئیے مگر ایک لکڑی جس سے میں نے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر

دانتوں میں خلال کیا تھا، اس کے سبب میں آج تک جنت سے محبوس ہوں ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مماللعباد علیہم،ص58)

یعنی روکا گیا ہوں ۔ میں کہتاہوں:حدیث شریف میں اس کی تائید آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں مخفی رکھا ہے (1) اپنی رضا کو اپنی اطاعت میں مخفی رکھا اور(2)اپنی ناراضگی کو نافرمانی میں اور(3) اپنے اولیا کو اپنے بندوں میں۔
(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص58)

تو ہر اطاعت اور ہر نیکی کو عمل میں لانا چاہیے کہ معلوم نہیں کس نیکی پر وہ راضی ہوجائے گا اور ہر بدی سے بچنا چاہیے کیونکہ معلوم نہیں کہ وہ کس بدی پر ناراض ہے خواہ وہ بدی کیسی ہی صغیر ہو مثلاً کسی کی لکڑی کا خلال کرنا ایک معمولی سی بات ہے یا کسی ہمسایہ کی مٹی سے اس کی اجازت کے بغیرہاتھ دھونا گویا ایک چھوٹی سی بات ہے مگر چونکہ ہمیں معلوم نہیں اس لئے ممکن ہے کہ اس برائی میں حق تعالیٰ کی ناراضگی مخفی ہو تو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بچنا چاہیے۔

حضرت حارث محاسبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کیال جو کہ غلہ جات کا ماپنے والا تھا اس نے اس کام سے توبہ کی اور عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوا جب وہ مرگیا تواس کے بعض احباب نے اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ میرے ماپ میں (یعنی اس ٹوپا میں جس سے غلہ ماپتا تھا) کچھ مٹی سی بیٹھ گئی تھی ۔ جس کا میں نے کچھ نہ کیا تو ہر ٹوپاماپنے کے وقت بقدر اس مٹی کے کم ہوجاتا تھا تو میں اس قصور کے سبب معرض عتاب میں ہوں۔
(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص58)

اسی طرح ایک شخص اپنی ترازو کو مٹی وغیرہ سے صاف نہیں کرتا تھا اسی طرح چیز تول دیتا تھا جب وہ مرگیا تو اس کو قبر میں عذاب شروع ہوگیا ۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس کی قبر میں سے چیخنے چلانے کی آواز سنی تو بعض صالحین نے اس کے لئے دعائے مغفرت کی۔
(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص58)

تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کے عذاب کو دفع کیا۔
حضرت ابو میسرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک میت کو قبر میں عذاب ہورہا تھا اور اس سے آگ کے شعلے ظاہر ہوئے تو مردہ نے پوچھا :مجھے کیوں مارتے ہو؟ فرشتوں نے کہا کہ تو ایک مظلوم پر گزرا، اس نے تجھ سے استغاثہ کیا مگر تونے اس کی فریاد رسی نہ کی اور ایک دن تونے بے وضو نماز پڑھی ۔
(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص59)
شریح قاضی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے: ''ایاکم والرشوۃ فانھا تعمی عین الحکیم''

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص59)

کہ تم رشوت سے بچا کرو کہ رشوت حکیم کی آنکھ کو اندھا کردیتی ہے ۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب کسی حاکم کو دیکھتے کہ وہ مساکین پر کچھ تصدق کرتا ہے تو آپ فرماتے: اے صدقہ دینے والے تونے جس پر ظلم کیا ہو اس پر رحم کراور اس کی داد رسی کر کہ یہ کام صدقات سے بہت بہتر ہے ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص59)

حضرت میمون بن مہران رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی پر ظلم کرے پھر اس گناہ سے نجات حاصل کرنا چاہے تو چاہیے کہ ہر نماز کے بعد اس شخص کے حقمیں دعائے مغفرت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے گا ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،خوفہم مما للعباد علیہم،ص59)

میں کہتا ہوں: یہ اس صورت میں ہے کہ وہ مظلوم فوت ہوجائے اوراگر زندہ ہو تو اس سے معاف کرائے ۔ حضرت میمون بن مہران رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات نمازی نماز میں اپنے آپ پر لعنت کہتا ہے اور وہ جانتا نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ فرمایا کہ وہ پڑھتا ہے:

اَلَا لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

(پ12،ہود:18)

ظالموں پر اللہ کی لعنت۔

اور وہ خود ظالم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے نفس پر بسبب گناہوں کے ظلم کیا ہوتا ہے اور لوگوں کے اموال ظلماً اس نے لیے ہوتے ہیں۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مماخوفہم للعباد،ص59)

اور کسی کی بے عزتی کی ہوتی ہے تو لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ اس کو بھی شامل ہوتی ہے۔

حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن لوگوں پر ظلم کرتاہے آپ نے فرمایا کہ تو ڈرتا نہیں؟ایسے دن میں ظلم کرتا ہے جس دن قیامت قائم ہوگی اور جس دن تیرا باپ آدم علیہ السلام پیدا ہوا ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مماخوفہم للعباد،ص60)

حضرت احمد بن حرب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا سے کئی قومیں کثرت
حسنات کے ساتھ غنی نکلیں گی اور قیامت میں مفلس ہوں گی کہ حقوق العباد میں سب حسنات کھو بیٹھیں گی

۔(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مماخوفہم للعباد،ص60)

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اگر تو ستر گناہ اپنے خالق کے، لئے ہوئے خالق کے دربار میں پیش ہو تویہ اس سے بہتر ہے کہ تو مخلوق کا ایک گناہ لے کر جائے ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مماخوفہم للعباد،ص60)

یعنی حقوق العباد میں سے ایک گناہ خداتعالیٰ کے ستر گناہ سے بہت بڑا ہے ۔ پیارے ناظرین غورفرماویں کہ بزرگانِ دین کو حقوق العباد کا کس قدر خوف تھا تو ہمیں بھی چاہیے کہ ان بزرگوں کے اتباع میں حقوق العباد سے بچتے رہیں اور حتی الوسع اپنی حیاتی میں حقوق العباد کی نسبت اپنا معاملہ صاف کرلینا چاہیے۔
Owais Attari
About the Author: Owais Attari Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.