پاکستانی نوجوانوں کی ملک چھوڑنے کی وجوہات کیا؟

بیورو آف امیگریشن کی دستاویز کے مطابق گزشتہ سال ۷ لاکھ سے بھی زائد پاکستانی نوجوانوں نے اپنا ملک چھوڑ کر باہر ممالک کی جانب ہجرت کی۔ اس سال کے اعداد و شمار میں ۹۲ ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جیسے ڈاکٹر، انجینئر، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور اکاؤنٹنٹ بھی شامل تھے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی نوجوانوں کی محبِ وطنی پر سوال اٹھایا گیا مگر کیا ہم نے یہ سوچا کہ ایسا ہوا کیوں؟ اور اس کی کیا وجوہات بنی؟ پاکستان میں طویل عرصے سے مسلسل سیاسی عدم استحکام اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران نے پاکستان کے مستقبل کو تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے۔

اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے ملک کی موجودہ حالت کا تفصیلی طور پر جائزہ لیتے ہیں۔
اس وقت اگر پاکستان کی موجودہ حالت کو دیکھا جائے تو یہاں لوگ کھانے پینے کی اشیاء کیلئے بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان پچھلے پچاس سالوں کے مشکل ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کے مطابق ہمارے پاس اشیاء درآمد کرنے کے پیسے موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں ضروری اشیاء کے دام دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی جو عموماً ۵ یا ۶ فیصد رہتی ہے۔ اب ۲۵ فیصد سے بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یعنی ۱۰۰ روپے میں ملنے والی چیز کی قیمت اب ۱۲۰ یا ۱۳۰ روپے تک جا پہنچی ہیں۔ آٹے کے ۲۰ کلو کے توڑے کے دام ملک کے بیشتر علاقوں میں تین، تین ہزار میں مل رہے ہیں۔ بنیادی کھانے پینے کی اشیاء کے دام سونے کی مانند ہیں۔ ایسے میں جب بنیادی چیز ہی کھا پانا مشکل ہے، وہاں عوام دوسری خواہشات کو پورا کر پانے کے بارے میں تو قطعاً سوچ بھی نہیں سکتی۔
آج ۲۰۲۳ میں جہاں دنیا چاند پہ گھر بنانے کی باتیں کرتی ہے ، پاکستان میں بجلی بچاؤ مہموں کا آغاز دکانیں اور شاپنگ مالز کو جلدی بند کروا کے کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکومت مسلسل قرضہ مانگنے پر مجبور ہے۔ مگر اس سب کی وجوہات پر سوچ بچار کرنے سے ہم گریز کر رہے ہیں۔ آخر ہم یہاں تک کیسے پہنچے ؟ اس معاملے پر بھی تھوڑی نظر ثانی کرتے ہیں۔
ہمیں مسلسل مختلف قسم کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔ ایسا کیوں؟
سب سے پہلے سیاسی تباہ کاریوں پر نظر ثانی کر لیتے ہیں۔

ملک بننے سے لے کر اب تک کسی بھی حکومت کو اس کے پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے۔ یہ ایک بڑی تباہ کاری کی وجہ ہے۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان بننے سے لے کر اب تک تقریباً اٹھارہ مرتبہ تو ملک کے وزیر اعظموں کو ان کی عہدے سے کرپشن یا فوجی بغاوت کی وجہ سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے مسلسل معیشت گرتی چلی جا رہی ہے ۔جبکہ قرضہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ حکومت کو بھی عدم اعتماد کے ووٹ کے تحت گرایا گیا ، جبکہ ملک نہایت مشکل موڑ پہ تھا اور نئی حکومت کے آتے ہی مسائل میں کمی آنے کی بجائے ملک مزید تباہ کاریوں کی جانب رواں دواں ہے۔ کیونکہ ہر حکومت دوسری حکومت کو گرا کر نئی تبدیلی لانے کی بات تو کرتی ہے مگر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کے جب کوئی حکومت بدلتی ہے تو مالیتی پالیسی بھی بدلتی ہے۔ جس سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس سال بھی ملک کی معیشت ۲فیصد سے بڑھے گی، جبکہ مہنگائی ۳ فیصد سے۔ درآمدات اور برآمدات کی بات کریں تو ملک کی برآمدات ۳۰ بلین ڈالرز ہیں، جبکہ درآمدات ۹۰ بلین کے آس پاس۔ جس کا مطلب ہے کے ہر سال ہم ۳۰ بلین ڈالرز کماتے ہیں جبکہ ۹۰ بلین ڈالرز ہم خرچ کرتے ہیں ایسے میں یقیناً ہمیں قرضوں کی طرف رخ موڑنا ہی ہوتا ہے اور اسی وجہ سے غیر ملکی ذخائر تیزی سے گھٹ رہے ہیں۔

ہمارا جی ڈی پی ہے ۳۷۶ بلین ڈالرز جبکہ ہم پر قرضہ ہے ۲۷۴ بلین ٖٖڈالرز کا ۔ اور چونکہ ہر سال اس قرضے پر شرح سود بڑھ جاتی ہے تو اس لیے ہر سال ہمارے اخراجات کا 1/3 حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے صاف ہے کہ ہم ابھی ایک مردہ ٹریک پر چل رہے ہیں۔
پھراب بات موسمیا ت کی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کی بات کریں تو پچھلے سال آنے والے سیلاب نے ملک کی کمر بری طرح توڑی ہے اور اس طرح کے دیگر بہت سے مسائل ملک کو اس وقت درپیش ہیں۔

ایسے میں نوجوانوں کیلئے روزگار کو مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تو کیا ان حالات میں خود کے اور خاندان کے مستقبل کے بارے میں سوچنا غلط ہے؟ کیا ایک بہتر مستقبل کیلئے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کرنا اپنے ملک سے محبت پہ سوال اٹھانے کی ما نند ہے؟ ہمارے ملک میں جب نوجوانوں کیلئے پڑھنے لکھنے کہ باوجود روزگار کے مواقع نہیں ہو ں گے تو وہ یقیناً اک بہتر مستقبل کیلئے دوسرے ذرائعوں کی جانب جائیں گے۔ ہماری حکومتوں اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا کام بنتا ہے کہ ایسے حالات میں بجائے لڑنے کے اپنے ملک کی بہتری کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہوں اور مل کر مسائل کا حل تلاش کریں ۔ ہر اس اقدام کو بروئے کار لائیں جس سے ملک کی بہتری ممکن ہے۔ او رہر وہ اقدام بھی یقیناً ضرور کریں کہ جس سے ملک کا آنے والا مستقبل بھی محفوظ رہے۔ اور اس کیلئے ہمیں چاہئیے کہ اپنے ملک سے سب سے کرپشن کا خاتمہ ہر حال میں یقینی بنائیں ورنہ شاید یہ ملک مزید ڈیفالٹ کی جانب ہی جائے گا نہ کہ بہتری کی جانب۔ ختم شد!

 

Sana Khan
About the Author: Sana Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.