طاہر القادری اور آصف علی زرداری کی سیاسی جھپی اور عمران خان کی متوقع شمولیت - - منافقت، اصول پسندی، سیاست یا احکامات ؟؟؟؟؟؟؟

تینوں مختلف پارٹیوں کے چوٹی کی لیڈران کی اپنے سابقہ موقف سے ٣٨٠ ڈگری کا یو ٹرن اور ذاتی و جماعتی مفادات کو ملک کے مفادات پر فوقیت سے اگر یہ سب عوام کو چونا لگانے کے چکر میں ہیں تو یقین کریں چونا ان کو بلکہ ان کے ساتھ ساتھ کئی دوسروں کو ہی لگے گا۔ نواز شریف صاحب اگر حالات و واقعات کو صفحہ بصفحہ پڑھنے کی کوشش کریں تو ان کو اپنے سوال “مجھے کیوں نکالا“ کا جواب بھی بخوبی مل جائے گا کہ انہیں کیوں نکالا۔

گزشتہ دنوں سیاسی میدان میں ایک بڑی حکمران جماعت یعنی ن لیگ کا اگلے الیکشن ٢٠١٨ میں مقابلہ لڑنے سے معزوری سمجھتے ہوئے آصف علی زرداری صاحب نے علامہ طاہر القادری صاحب کو کہ جنہیں زرداری صاحب جوکر اور نہ معلوم کیا کچھ کہتے رہتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے چوٹی کے لیڈران طاہر القادری صاحب کو جو کچھ کہتے رہے اس پر مزید کیا لکھا جائے ؟ لیکن سیاسی حکمت عملی سمجھ لیجئے یا بے شرمی اور ڈھٹائی کا اعلیٰ مظاہرہ کہ وہی آصف علی زرداری صاحب اپنی جماعت کی سیاسی بقا کے لئے طاہر القادری صاحب کو جھپیاں مارتے دکھائی دیئے اور دونوں اس طرح مل بیٹھے کہ جس طرح آصف علی زرداری صاحب برطرف نواز شریف صاحب کے ساتھ بیٹھتے رہے۔ وجہ آصف علی زرداری صاحب تو بتا نہیں پائے مگر عوام کی آگاہی کے لئے ہم بتا دیتے ہیں، وہ وجہ یہ ہے کہ ملکی سطح پر پیپلز پارٹی کو سندھ کے علاوہ ہر صوبے سے جس طرح انتخابی شکستوں کا سامنا رہا ہے اس سے پیپلز پارٹی بوکھلا چکی ہے اور اسے معلوم ہے کہ سینٹ کے الیکشن جو مارچ ٢٠١٨ میں ہونا ہیں اس میں فی الوقت پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے کیونکہ ٢٠١٣ کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد زیادہ تھی چنانچہ سینٹ میں پیپلز پارٹی اکثریت جماعت ہے اور سینٹ کے چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کے رضا ربانی صاحب منتخب ہوپائے تھے اپنی جماعتی اکثریت کی وجہ سے، اب ہونے یہ جارہا ہے کہ سینٹ میں مارچ ٢٠١٨ میں جو سینٹ اراکین منتخب ہوں گے ان میں ن لیگ کی اکثریت ہوجائے گی اور پیپلز پارٹی اپن اکثریت میں سے ستر یا اسی فیصد نمائندگی کھودے گی

اس طرح ن لیگ تن تنہا سینٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعت ہوجائے گی اس طرح قومی اسمبلی میں ن لیگ حکومتی اکثریت کے ساتھ جو بھی بل یا ترمیم سینٹ کی منظوری کے لئے بھیجے گی وہ ن لیگ کی سینٹ میں اکثریت کے سبب باآسانی منظور ہوجائے گی جو فی الوقت پیپلز پارٹی کی اکثریت کے سبب ممکن نہیں ہوپارہا۔ اس صورتحال نے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ مقتدر حلقوں اور اداروں کو بھی خائف کررکھا ہے جس کے سبب ن لیگ کے خلاف پے درپے اسکینڈل اور فیصلے اور دھرنے اور لیکس داغی جارہی ہیں کہ کسی طرح ن لیگ کی حکومت کو مجبور کراکر نئے الیکشن اس خواہش پر کروائے جائیں کہ ن لیگ ان میں اکثریت حاصل نہ کرسکے، لیکن ن لیگ کی اعلیٰ قیادت ان تمام نقاط سے بخوبی واقف ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ کئی وزرا سے وقتا فوقتا استعفی لے کر انہیں ہٹا دیا گیا تاکہ حکومت کو جانے سے بچایا جاسکے اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم صاحب نے اقامہ کی بنیاد پر اپنی نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر وہ اپنی نااہلی کے باوجود حکومت کو ختم کرکے نئے انتخابات کرانے سے باز رہے۔ ان تمام واقعات اور حقائق کے بعد کبھی اداروں، کبھی عدلیہ، کبھی میڈیا، کبھی سیاسی جماعتوں، کبھی تانگہ جماعتوں، کبھی نان اسٹیٹ ایکٹڑز، غرض تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت بالاخر ٢٠١٨ کے قریب پہنچ ہی گئی اور حکومت کا ہمیشہ سے دوٹوک موقف یعنی الیکشن ٢٠١٨ سے پہلے نہیں ہونگے بالکل حقیقت پسند ثابت ہوگی اور جنہیں ہر اگلا مہینہ اور پھر ہر اگلا سال الیکشن کا مہینہ یا سال دکھائی دے رہا تھا انہوں نے اپنی خام خیالی کو ثابت کردیا۔ چنانچہ اب مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق تمام تر مخالفین کو الیکشن ٢٠١٨ سے پہلے کس طرح نظر آسکتا ہے۔

بات کہیں کی کہیں نکل گئی، وہی طاہر القادری صاحب کہ جن کو پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے منہ بھر بھر کے لعن طعن اور طنز و مزاح کا نشانہ بنایا تھا آج آصف علی زرداری صاحب انہیں طاہر القادری صاحب (کہ جنہیں کبھی جوکر اور کبھی کچھ کہا جاتا رہا ہے) کے ساتھ ملک کر جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے کام کر رہے ہیں اور وہ بھی اگر پاکستان عوامی تحریک کو ایک مستند سیاسی جماعت مان لیا جائے تب۔

اور دوسری جانب طاہر القادری صاحب جو آصف علی زرداری کو کیا کچھ نہیں کہتے رہے وہ بھی آج آصف علی زرداری صاحب کے لئے نئے روپ میں سامنے آئے، اللہ اللہ اس سادگی پر کون نہ قربان ہوجائے۔آصف علی زرداری کہنے کو تو ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ ہوتے ہیں جب وہ نواز شریف کی حکومت کو بچائیں جب بھی اور اب جب حکومت کے خلاف ہوں تب بھی۔

آصف علی زرداری صاحب اپنے سابقہ انٹریوز میں کہتے رہے ہیں کہ انہیں نواز شریف کے خلاف کرنے کی کوششیں کی گئیں اور ان سے رابطے رکھے گئے مگر انہوں نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والوں کا ساتھ نیہں دیا، اب آصف علی زرداری کون سے روابط کے سبب جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں یہ سوال تو آصف علی زرداری صاحب ہی دے سکتے یہں۔

ان تمام تر سیاسی اوراق کو ترتیب سے پلٹ پلٹ کر پڑھنے کے بعد نواز شریف صاحب کو یہ سوال اب نہیں کرنا چاہئے کہ “مجھے کیوں نکالا“ اگر وہ زیرک اور ٹھنڈے دل و دماغ سے تمام تر صورتحال اور واقعات کو نکات بہ نکات پڑھنے کی کوشش کریں تو انہیں بالکل ٹھیک طور پر معلوم ہوجائے گا کہ انہیں کیوں نکالا۔ بہرحال اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں اب شیر کے شکار کے لئے بھی تو کتے، بھیڑے، گیدڑ اور گدھ اسی طرح جمع ہوتے ہیں کہ ہر ایک کے الگ الگ کام ہوتے ہیں کہ کس نے کس طرح کرنا ہے شیر کے ساتھ، اب ان مکروہ جانوروں سے مطابقت اتفاقی تصور کی جائے، راقم اس سلسلے میں تمثیل بیان کرنے کے بعد مزید کسی تشریح کا مکلف نہیں شمار کیا جائے۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے کہ حکومت سے اختلاف کے بعد کچھ چوٹی کے اپوزیشن لیڈران کو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈر بھی برا معلوم ہورہا ہے اور سی پیک کے خلاف ان کے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جس میں وہ چین کو غاصب قرار دینے پر مصروف ہیں تاکہ کسی طرح تو یہ حکومت جائے چاہے اس کے لئے چین کو ضد بحث اور نفرت کا نشانہ بنا کر سی پیک کا خاتمہ یکطرفہ ہی کروانے کی اپنی سی کوشش کرلی جائے۔
 

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495037 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.