سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا کی تقویٰ شعار زندگی کے چند پہلو: تجزیاتی مطالعہ کی روشنی میں

خواتین اسلام کے لیے اسوۂ فاطمی نمونۂ عمل اورپاکیزہ زندگی کی اقدار کی تشکیل کے لیے شفاف آئینہ ہے

اسلام کے کامل ترین نظام کا یہ حصہ ہے کہ طبقۂ نسواں کے لیے بھی زندگی کی تعمیر و تشکیل کا مکمل نظام اور قانون موجود ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حیاتِ طیبہ اس کی مثال ہے۔ آپ نے بارگاہِ نبوت سے جو فیض حاصل لیا اس کی اشاعت مدتوں کی۔ صحابیات کو مسائل سے آگاہ کرتیں، ان کی باقاعدہ تربیت کا انتظام کیا ہے ام المومنین نے۔ اسلام کے حقوق نسواں کے نظام کی ترسیل موثر طریقے سے ام المومنین نے کی؛ اوران تمام پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جن کے ذریعے ایک خاتون اپنی زندگی کو مقاصد تخلیق کے ضابطوں کی تکمیل کے ساتھ گزار سکے۔ اس طرح اسلام کے فطری نظام کی ترویج کا رول ماڈل پیش کیا ہے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے۔ یوں ہی خاتون جنت سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اﷲ عنہا کی حیاتِ طیبہ بھی کئی جہتوں سے ممتاز، نمایاں، بے مثل، عدیم النظیر ہے جن سے درس پا کر طبقۂ نسواں اپنے وقار کو بحال کر سکتا ہے، حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے آپ کی ذات مشعلِ راہ بھی ہے اور نشانِ منزل بھی۔

چند خصوصیات :
[۱] سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اﷲ عنہا کی ذات ممتاز ہے اس لیے کہ بنتِ رسول ہیں، صاحب زادیِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔
[۲] تاج دارِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں رکھ کر مثالی خاتون بنایا۔جن کی ذات پاک قیامت تک کے لیے وقارِ نسواں کی تابندگی کامظہر بن گئی ہے۔
[۳] جب بھی تقدسِ نسواں اور عفتِ بنت حوا کی بات کی جائے گی تو سیرتِ فاطمۃ الزہراء مثال میں پیش کی جائے گی۔
[۴] خواتین کے لیے کامیاب زندگی کا سب سے نمایاں باب ہے سیرتِ فاطمۃ الزہراء۔
[۵] باب العلم خلیفۂ چہارم شیر خدا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی زوجہ جیسی عظیم نسبت بھی سیدہ فاطمۃ الزہراء کو حاصل ہے۔
[۶] اسلام کی شرعی سرحدوں کی پاس بانی کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والی ذات حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی تربیت جس والدہ کی گود میں ہوئی اسی کا نام حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ہے۔ گویا صبر و استقامت کا درس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عنایت سے دو دو نسبتوں سے امام حسین کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی و حضرت فاطمہ نے ریگ زارِ کربلا میں دین کی اساس کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ اسلام پر جاں نثاری کا جو درس دیا تھا امام حسین نے اس کی مکمل پاس داری کی۔ سیدنا امام حسن رضی اﷲ عنہ کا ایثار، فکرو تدبر اور مثالی زندگی بھی سیدہ فاطمہ کی عظمت کا نقشِ جمیل ہے۔
[۷] جنتی عورتوں کی سردار ہیں سیدہ فاطمۃ الزہراء جن کے فیضانِ کرم سے طبقۂ نسواں اس قدر نوازا گیا کہ جب بھی کسی خاتون کی دین کے لیے شجاعت و قربانی کا ذکر کیا جائے گا اس کی حیات کی تشکیل اور فکر کی تعمیر میں درسِ فاطمی نمایاں دکھائی دے گا۔
[۸] بارگاہِ نبوی سے نسبت و قرب کے سبب جس قدر عظیم اختیارات و سربلندیوں سے آراستہ تھیں اس کا اندازا ہماری معمولی عقلیں نہیں لگا سکتیں؛ ان سب کے باوجود سادہ زندگی، اور رضائے الٰہی کے لیے قناعت و صبر کا جو نمونہ آپ نے پیش کیا وہ مثالی بھی ہے اور دنیا میں بسنے والی ہر خاتون کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے لیے رول ماڈل بھی،
[۹] آپ کی ذات تمام ظاہری و باطنی خوبیوں سے آراستہ تھی؛ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے مقام کی عظمت و بلندی کا ادراک ہم جیسے کوتاہ علم نہیں کر سکتے۔
[۱۰] اسلام کے قوانین برائے نسواں کو چیلنج کرنے والے حیاتِ سیدہ فاطمۃ الزہراء کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کس قدر پاکیزہ و مطہر و عظیم مقام اسلام نے خواتین کو دیا؛ اس کی مثال کسی بھی مذہب یا ازم یا نظریے میں نہیں پیش کی جا سکتی۔ تاریخ انسانی ایسی کم ہی مثالیں پیش کر سکتی ہے جن کے سرے پر کسی خاتون کی انقلاب بداماں زندگی نے تعمیر فکر ونظر کا فریضہ انجام دیا ہو! انقلاب آفریں ذات ہے سیدہ فاطمہ کی۔

سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہ کے مناقب و شان میں یہ پیاری روایت ہے: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا ہے کہ اﷲ نے اس کو اور اس کے محبوبوں کو دوزخ سے جدا کیا ہے۔ (صواعق محرقہ،ص۱۵۱)

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بے شک فاطمہ پاک دامن ہے اور اﷲ نے اس کی اولاد پر دوزخ کو حرام فرمایا ہے۔ (ابونعیم المستدرک حاکم،ص۱۵۳)

پیکر صبر و حیا، استقامت و تقویٰ کی مظہر، نبوی آغوشِ تربیت کی پروردہ سیدہ طیبہ زاہدہ عابدہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا کردار اپنا کر حقوق نسواں کا تحفظ بھی کیا جا سکتا ہے اور خواتین کی عصمتوں، عظمتوں، آبروؤں کو موجودہ جدیدیت کی وحشی تہذیب کے لقمۂ تر بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ایسی باوقار خاتون کے کردار کو اجاگر کر کے مغرب کے بے حیا کرداروں کی قلعی کھولی جا سکتی ہے اور بکتی حیا، لٹتی عصمت کو بچایا جا سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء کے کردار کو موجودہ عہد کی خواتین میں نمایاں کیا جائے۔ خلافِ شرع کاموں سے بچ کر اسلام کے حکم پردہ کی پاس داری کی جائے۔ آج کا المیہ یہ بھی ہے کہ پردے کی بات کرنے والے واعظین بھی اسکرینوں کے ذریعے خواتین میں خود کو نمایاں کر کے بے پردگی کی تعلیم دے رہے ہیں؛ انھیں فاطمی درسِ حیا و پاس داریِ پردہ سے سبق لینا چاہیے اور حضرات حسنین کریمین کی تعلیمات کی دعوت و تبلیغ کو مطمح نظر بنانا چاہیے تا کہ نبوی انقلاب کی تازہ ہواؤں سے دلوں کی کلیاں کھل اٹھیں اور گلشن حیات مہک مہک اٹھے ؂
کیا بات رضاؔ اس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
٭٭٭
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.