وقت ایک قیمتی سرمایہ

اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورج کے طلوع و غروب کا ایک وقت مقرر فرما دیا ہے اور سورج اپنے اُسی مقررہ وقت کے مطابق روزانہ طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ سورج کے اس نظام الاوقات میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا یعنی آج سورج جس وقت پر طلوع اور غروب ہوا اگلے سال اسی دن ٹھیک اسی وقت پر طلوع اور غروب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نمازوں کے اوقات کے دائمی نقشہ جات بنائے گئے جن میں پورے سال میں سورج کے طلوع و غروب اور نمازوں کے اوقات درج ہوتے ہیں۔ یہی حال چاند کا بھی ہے کہ چاند اپنے نظام الاوقات کے مطابق اپنا سفر کرتا رہتا ہے۔ مزید سائنسی تحقیق کی طرف دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زمین اور دوسرے سیارے وغیرہ اپنے اپنے مخصوص مدارمیں مخصوص رفتار کے ساتھ اپنا سفر کر رہے ہیں اور اگر اس میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے برابر بھی فرق آجائے تو سب آپس میں ٹکرا جائیں اور کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ ہم اپنے جسمانی نظام پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں بھی دل کی اپنی مخصوص دھڑکن ہے، سانس کی اپنی مخصوص رفتار، نظام دوران خون، نظام تنفس، نظامِ انہضام غرض پورے جسم کا ہر ہر عضو اپنے اپنے مخصوص نظام اور طریقہ کار کے مطابق اپنا کام کر رہا ہے۔غرض کائینات کی ہر ہر چیز، ہر ہر کام ایک خاص نظام الاوقات کے تحت وقت کی پابندی کے ساتھ چل رہا ہے۔

اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتا ہے جس میں وقت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ عبادات کی طرف دیکھیں تو نماز، روزہ، حج وغیرہ کا ایک خاص طریقہ اور وقت مقرر ہے۔ اور اس میں وقت کی اہمیت اور قدر و قیمت کیا ہے اس کا اندازہ چند مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے مثلاً روزہ رکھتے ہوئے اگر سحری سے ایک منٹ بعد بھی کچھ کھا لیا تو روزہ نہیں ہوا اور اسی طرح روزہ اگر افطاری سے ایک منٹ پہلے بھی کچھ کھا پی لیا تو روزہ ٹوٹ گیا اوراگر فرض روزے میں ایسا جان بوجھ کر کیا تو اب قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم آتا ہے۔ اسی طرح رمضان کے اعتکاف کا معاملہ ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے لئے بھی اوقات مختص ہیں، نماز بھی اپنا وقت گزرنے کے بعد ادا نہیں بلکہ قضا ہو جاتی ہے۔ عام معمولات زندگی میں بھی ہمیں مختلف مواقع پر وقت کی قدر و قیمت کا پتا چلتا ہے جب اس طرح کہ جملے ہماری زبان پرآتے ہیں کہ ’’آج تو بال بال بچ گئے‘‘، ’’اگر ایک سیکنڈ کی بھی دیر ہوجاتی تو گاڑی میرے اوپر ہوتی اور میں اس وقت قبر میں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

غرض شریعت کے احکامات میں اور دنیا کے حوادث میں بھی، اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور روز مرّہ کے معمولات میں ایک ایک منٹ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ سب بتانے سے مقصود اصل میں وقت کے بارے میں اُس غفلت کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں آجکل ہم کثرت سے مبتلا ہیں۔ دس پندرہ منٹ، گھنٹہ دو گھنٹہ کی تو ہماری زندگی میں کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ اگر کہیں گپ شپ کے لئے بیٹھے تو بس گھنٹوں گزر گئے اور پتا ہی نہیں چلا، کھیل کود میں سارا سارا دن نکل گیا کوئی پرواہ نہیں، گھومنے پھرنے میں ساری ساری رات گزار دی اور احساس تک نہیں، پھر سوئے تو سارا دن گزر گیا اور آنکھ ہی نہیں کھل رہی۔

یہ حالت اسی لئے ہے کہ دل میں وقت کی قدر و قیمت نہیں ہے اسی لئے وقت کو کار آمد بنانے کی فکر اور اس کے ضائع ہونے پر کوئی رنج و غم نہیں ہوتا۔ وقت کے بارے میں بے فکری اور اس کے ضیاع کے نمونے روز ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں بالخصوص دعوتوں اور تقریبات پر جتنا وقت ضائع ہوتا ہے اس کا کوئی حدوحساب نہیں۔ آجکل کسی تقریب میں اگر کوئی مقررہ وقت پر پہنچ جائے تو اُسے بیوقوف سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان دعوتوں و تقریبات میں بے حساب تاخیر کرنے کی وبا اس قدر عام ہوگئی ہے کہ مہمان مقررہ وقت سے خود ہی دو تین گھنٹے آگے کر لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ دن رات گھروں، دفاتر اور ہوٹلوں پر گپ شپ کے حلقے، بازاروں اور تفریحی مقامات پر لوگوں کے ہجوم ، دوست احباب کی ہنسی مذاق کی محفلیں، یہ سب وقت کو بے دریغ ضائع کرنے کے اسباب میں سے ہیں۔ وقت کو ضائع کرنے کی نحوست ہے کہ ہمارے اوقات سے برکت ختم ہو گئی ہے۔ حالانکہ آجکل مشینی دور ہے ہر کام جلدی جلدی اور مشینوں کے ذریعے ہونے لگا ہے، جہاں ایک سفر طے کرنے میں کئی دن لگ جاتے تھے اب وہ گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے ، کمپیوٹر نے بہت سے کام آسان اور تیز کر دیے ہیں لیکن پھر بھی ہر شخص کی زبان یہی شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ ’’کیا کریں وقت ہی نہیں ملتا‘‘، ’’کوئی کام نہیں ہو پاتا‘‘۔ ایک شخص ۰۷ یا ۰۸ سال کی زندگی گزار کر جب بڑھاپے کو پہنچتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو سوائے غفلت کے کچھ نظر نہیں آتا۔

ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جنہیں اکثر لوگ ضائع کرتے ہیں، صحت اور فارغ وقت‘‘ ﴿بخاری﴾۔

اس بے برکتی کی دوسری وجہ نظام الاوقات اور ترتیب کا نہ ہونا ہے۔ نظام الاوقات میں چونکہ پابندی ہوتی ہے جو نفس پر شاق ہوتی ہے۔ اس لئے ہم اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ وقت کے معاملے میں بھی آزادی چاہتے ہیں۔ اسی بے فکری سے ہمارا مزاج کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کوئی کام نظم اور وقت کی پابندی کے ساتھ کرنا بہت مشکل ہے۔ حالانکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ جو فائدہ مند نتائج نظم و ترتیب اور وقت کی پابندی کے ساتھ کسی کام کو کرکے حاصل ہوتے ہیں وہ اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ مستقل مزاجی بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے اور وقت کی پابندی کی عادت ہی انسان کے لئے استقامت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

اسلاف کے حالات زندگی پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ اپنی زندگی میں اتنے سارے کام کیسے کرگئے؟ کیونکہ وہ لوگ وقت کی قدر و قیمت کو جانتے تھے ، انہوں نے اپنی زندگی کے لئے نظام الاوقات بنا ہوا تھا اور ہر معاملے میں وہ وقت کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔اللہ تبارک و تعالی نے اُن کی زندگیوں میں برکت بھی رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دے گئے کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ حضرت امام ابن جوزی(رح) کے غسل کے لئے جو پانی گرم کیا گیا وہ اُس بورے کو جلا کرکیا گیا جو آپ کے قلم تراشنے سے جمع ہوا تھا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا روزانہ کا لکھنے کا معمول تھا اور اس کے لئے ایک وقت بھی مقرر تھا۔ ایک دفعہ حضرت کے اُستاد اُن سے ملنے کے لئے تشریف لائے اور حضرت بڑے شوق اور ادب سے اپنے استاد کی خدمت میں حاضر تھے لیکن جب اپنے معمول کے مطابق لکھنے کا وقت ہوا تو اپنے استاد محترم سے عرض کی کہ حضرت میرا اس وقت کچھ لکھنے کا معمول ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو اُسے پورا کر لوں اب وہ بھی حکیم الامت کے استاد تھے لہٰذا بخوشی اجازت مرحمت فرما دی۔ حضرت تشریف لے گئے اور بس تھوڑی دیر میں ہی واپس آگئے تو آپ کے استاد نے پوچھا کہ کیوں بھئی لکھنے کا کام ختم ہوگیا؟ تو حکیم الامّت نے عرض کیا کہ حضرت لکھنے میں دل تو لگا نہیں کیونکہ آپ تشریف لائے ہوئے تھے لیکن میں نے سوچا کہ ناغہ نہ ہو اس لئے تھوڑی دیر معمول پورا کرکے آگیا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت حکیم الامّت کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت عطا فرما دی کہ دعوت و تبلیغ کی اتنی مصروفیات کے باوجود بھی آپ کی ہزار سے زیادہ تصانیف ہیں۔

وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی عجیب نعمت ہے جو دنیا کے ہر شخص کو اُس کی موت تک برابر ملتی رہتی ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتیں کسی کو کم ملتی ہیں توکسی کو زیادہ جبکہ وقت ایک ایسی نعمت جو دنیا کے ہر انسان کو چاہے مسلمان ہو یا کافر، برابر برابر ملتا ہے۔ ہر کسی کو سال میں بارہ مہینے، مہینے میں چار ہفتے، ہفتے میں ۷ دن اور دن میں ۴۲ گھنٹے ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی قیمت پر خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اْس کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اْسے دوبارہ مل جائے بلکہ بعض اوقات مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

دوسری طرف ہر کسی کی موت کا وقت بھی متعین ہے جس کا اُسے علم بھی نہیں اس لئے کچھ پتہ نہیں کہ کب زندگی کی مہلت ختم ہوجائے اور وقت کے یہ گنے چنے لمحے ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں۔ اس لئے بحیثیت مسلمان اگر ہم اس وقت کو قیمتی جان کر اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے تو دنیا میں بھی اس کے فوائد حاصل ہوں گے اور آخرت میں بھی کامیابی حاصل ہوگی۔ لیکن اگر ہم نے وقت کی قدرو قیمت کا کچھ لحاظ نہ رکھا اور غفلت وسستی کے ساتھ اسے گناہوں اور لغویات اور فضولیات میں ضائع کردیا تو دنیا میں بھی کچھ حاصل نہ ہوگا اور آخرت میں بھی رسوائی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ارشاد ہوگا کہ: ’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔ تو اب مزے چکھو۔ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ‘‘۔﴿فاطر: 37﴾۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’قسم ہے زمانے کی، کہ انسان نقصان میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے‘‘۔ ﴿سورۃالعصر﴾

اس سورت کی زمانے سے کیا مناسبت ہے جو اس کی قسم کھائی گئی ہے؟ اس کی تفصیل میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب(رح) لکھتے ہیں: ’’توضیع اس کی یہ ہے کہ انسان کی عمر کا زمانہ اس کے سال اور مہینے اور دن رات بلکہ گھنٹے اور منٹ اگر غور کیا جائے تو یہی اسکا سرمایہ ہے جس کا ذریعہ وہ دنیا و آخرت کے منافع عظیمہ عجیبہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور عمر کے اوقات اگر غلط اور بُرے کاموں میں لگا دئے تو یہی اس کے لئے وبالِ جان بھی بن جاتے ہیں، بعض علما نے فرمایا ہے: یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے۔ جب اُن میں سے ایک گزر جاتا ہے تو تیری عمر کا ایک جز کم ہو جاتا ہے حق تعالیٰ نے ہر انسان کو اُس کی عمر کے اوقاتِ عزیز کا بے بہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگایا ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خالص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں کام میں لگادیا تو نفع کی تو کیا اُمید ہوئی یہ رأس المال بھی ضائع ہو جاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور رأس المال ہاتھ سے جاتا رہا بلکہ اُسپر سینکڑوں جرائم کی سزا عائد ہو جاتی ہے اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام پر لگایا نہ مضرت رساں میں تو کم ازکم یہ خسارہ تو لازمی ہے ہی کہ اسکا نفع اور رأس المال دونوں ضائع ہوگئے۔ اور یہ کوئی شاعرانہ تمثیل ہی نہیں بلکہ ایک حدیث مرفوع سے اس کی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر شخص جب صبح اُٹھتا ہے تو اپنی جان کا سرمایہ تجارت پر لگاتا ہے پھر کوئی تو اپنے اس سرمایہ کو خسارہ سے آزاد کرالیتا ہے اور کوئی ہلاک کر ڈالتا ہے۔‘‘ ﴿معارف القرآن﴾

اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس قیمتی سرمائے کو کس طرح استعمال کرتے ہیں یعنی اس سے نفع اُٹھاتے ہیں یا نقصان۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197393 views A Simple Person, Nothing Special.. View More