مقصد حیات

اس دنیا میں ہر کام کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد کار فرما ہوتا ہے۔ انسان کا ایک قدم بھی بلا مقصد نہیں اُٹھتا۔ پہلے انسان دل میں کسی مقصد کا تعین کرتا ہے پھر اُس کے حصول کے لئے سرگرم ہو جاتا ہے، یہی زندگی کا اصول ہے۔ اب وہ اس سرگرمی میں بہت سے راستے اور طریقے اختیار کرتا ہے اور مختلف افعال سر انجام دیتا ہے۔ لیکن کسی بھی راستہ، طریقہ یا فعل کا انتخاب کرتے وقت وہ اپنے مقصد کو پیشِ نظر ضرور رکھتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو لاہور جانا ہے اور یہ لاہور جانا اُس کا مقصد ہے۔ اب وہ اس مقصد کے حصول کے لئے بہت سے افعال سرانجام دے گا۔ وقت کا حساب لگائے گا، سواری کا بندوبست کرے گا، راستے کا خرچ اور سامان کا انتظام کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب کام کرتے ہوئے اُس کے ذہن میں ایک ہی مقصد ہے یعنی لاہور جانا۔ مثال کے طور پر اگر وہ ٹرین کا ٹکٹ لینے جاتا ہے تو اب بھی مقصد ٹرین میں بیٹھنا نہیں بلکہ لاہور جانا ہے اس لئے ایسی گاڑی کا ٹکٹ لینا ضروری ہے جو لاہور جاتی ہے، چاہے اس کا ٹکٹ لینے کے لئے لمبی قطار میں دھکے کھانے پڑیں۔ اسی طرح ٹرین میں سفر کے دوران وقت بھی گزارنا ہے مگر یہ ٹرین میں قیام بھی مقصد نہیں۔ حاصل یہ کہ اس دوران اُس مسافر نے کام تو بہت سے کئے لیکن کسی کام کو بھی اپنا مقصد نہیں بنایا بلکہ صرف اپنے اصل مقصد کے تابع رہا، اور اگر وہ اپنے مقصد کو یاد نہ رکھتا تو بھٹکنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر سکتا۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے اصل مقصد کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، جو اپنے اصل مقصد کو یاد نہیں رکھتا اور جو کام نظر آیا اُس کو مقصد بنا کر اُسی میں لگ گیا تو ایسے مسافر کو کبھی منزل نہیں ملتی۔ اب کچھ اور غور کریں تو اوپر والی مثال میں اس مسافر کا اصل مقصد لاہور جانا بھی نہیں کیونکہ وہ لاہور بھی تو کسی مقصد سے جارہا ہے، اور اُس کے پیچھے بھی کوئی اور مقصد ہوگا۔ اس طرح بات چلتے چلتے ہماری زندگی کی ابتدا تک پہنچتی ہے۔ یعنی ہمارا اصل مقصد ہماری زندگی کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے‘‘ ﴿المومنین ۵۱۱﴾۔

آئیے اب ذرا اپنے مقصدِ حیات پر غور کریں۔ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئے اور نہ اپنی مرضی سے جائیں گے۔ جب ہم اپنی زندگی کو نہ تو آغاز دے سکتے ہیں اور نہ انجام تو پھر اپنی مرضی کا مقصد کیونکر دے سکتے ہیں۔ جو ہماری زندگی کا خالق و مالک ہے اُسی نے ہماری زندگی کو مقصد بھی دیا۔ وہ مقصد کیا ہے؟ اللہ رب العزت کا ارشادِ پاک ہے ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ میری عبادت کریں‘‘ ﴿ذریات ۱۵﴾۔ اور عبادت کا مطلب رضائے الہٰی ہے۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم پر واضح فرما دیا کہ ہم سب انسانوں کا مقصدِ حیات اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنا ہے، اور اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارنا ہے۔ سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، کوئی بھی کام کرتے وقت اس مقصد کو یاد رکھنا ہے۔

اب ہم سب خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا ہم نے اپنی زندگی کے مقصد کو یاد رکھا۔ یا ہم اُس بھولے ہوئے مسافر کی طرح ہو گئے ہیں جس کو کبھی منزل نہیں ملتی۔ دنیا کے اسباب جو ہمیں مہیا کئے گئے تھے اپنے اصل مقصد کی تکمیل کے لئے، اللہ پاک کی رضا کے حصول کے لئے، آج ہم ان اسباب میں اتنا کھو گئے کہ انہی کو اپنا مقصد بنا لیا اور اپنے مقصودِ اصلی کو بھول گئے جس کے لئے ہم اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ کیا غلاموں کو یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے مالک کی اس طرح کھلی نافرمانی کریں جس طرح آج ہم کر رہے ہیں۔ اور مالک بھی ایسا رحیم و کریم کہ جس نے اپنے غلاموں کو آزاد چھوڑ دیا کہ جائو دنیا میں میری دی ہوئی نعمتوں سے لطف اُٹھاؤ، اپنے کام دھندے کرو لیکن شریعت کی حدود کے اندر رہ کر۔ ہاں دن میں پانچ وقت مجھے یاد کرلینا۔ لیکن یہ مت بھولنا کہ ’’ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے‘‘ ﴿العنکبوت ۷۵﴾۔ حق تعالیٰ نے بار بار قرآنِ پاک میں ہمیں یاد دہانی کروائی کہ ایک دن تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے اور یہ بات بھول نہ جانا۔ اللہ تعالیٰ ایک بار بھی فرما دیتے تو ہمارے لئے اس کو ماننا لازم تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہوتی، لیکن بار بار اس لئے فرمایا کہ یہ حقیقت دلوں میں بیٹھ جائے۔

لیکن آج ہم یہ بھی بھول گئے ہیں۔ اللہ کی قسم غفلت کی انتہا کردی ہم نے۔ اس دنیا کے نشے نے ہماری آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے، ہماری عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن رہے ہیں۔ آج ہمیں دنیا نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، لیکن قیامت کے دن اپنی غفلت کا کوئی عذر پیش نہ کر سکیں گے کیونکہ یہ دنیا جس سے آج ہم نے اپنا سب کچھ وابستہ کر رکھا ہے اس کی حقیقت بھی حق تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان فرما دی ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ہمیں آگاہ فرما دیا ہے کہ ’’لوگو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا ﴿شیطان﴾ تمہیں فریب دے‘‘ ﴿فاطر ۵﴾۔ پھر ایک جگہ ارشاد فرمایا ’’یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور ﴿ہمیشہ کی﴾ زندگی ﴿کا مقام﴾ تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ ﴿لوگ﴾ سمجھتے‘‘ ﴿العنکبوت ۴۶﴾۔ ذرا سمجھانے کا انداز تو دیکھئیے، کتنی محبت ہے۔ پھر ایک جگہ حق تعالیٰ ہماری غفلت پر فرماتے ہیں ’’مگر تم لوگ تو دنیا کی زندگی اختیار کرتے ہو۔ حالانکہ آخرت بہت بہتر اور پائندہ تر ہے‘‘ ﴿الاعلیٰ ۶۱، ۷۱﴾۔

اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز سے ہمیں سمجھایا ہے کہ کسی طرح یہ بات ہماری عقلوں میں آجائے تاکہ ہم دنیا کے دھوکے میں پڑ کر اپنا مقصدِ حیات نہ بھول جائیں۔ اللہ رب العزت نے سورہ حدید میں سمجھانے کے لئے یہ مثال بیان فرمائی ہے ’’جان رکھو دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ اور زینت ﴿و آرائش﴾ اور تمہارے آپس میں فخر ﴿و ستائش﴾ اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب ﴿و خواہش﴾ ہے۔ ﴿اسکی مثال ایسی ہے﴾ جیسے بارش کہ ﴿اس سے کھیتی اُگتی اور﴾ کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر تُو اس کو دیکھتا ہے کہ ﴿پک کر﴾ زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں ﴿نافرمانوں کیلئے﴾ عذابِ شدید اور ﴿فرمابرداروں کے لئے﴾ اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے‘‘ ﴿الحدید ۰۲﴾۔ یعنی انسان اپنی دُنیا سجاتا رہتا ہے اور ساری زندگی اس کی محنت میں گزار دیتا ہے۔ پھر موت آتی ہے اور سارا کیا دھرا اکارت ہو جاتا ہے۔ دنیا کو کھیتی کی مانند بتایا گیا ہے اور بارش یا طوفان موت ہے۔ اس آیت سے بھی یہی پیغام ملتا ہے کہ دنیا کے لئے اُتنی ہی محنت کرو جتنی ضروری ہے اور اس بات کو ذہن میں رکھو کہ اصل گھر آخرت ہی ہے۔

افسوس صد افسوس اگر اب بھی ہم نہیں سمجھتے۔ خدارا اب تو ہوش میں آجائیں کہ ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ ابھی ندامت کے چند آنسو ہماری زندگی بھر کے گناہوں کو دھو سکتے ہیں۔ توبہ کرلیں، اُس وقت سے پہلے کہ جب توبہ بھی کچھ کام نہ دے سکے گی۔ آئیے اللہ سے خلوصِ دل کے ساتھ دعا مانگیں کہ یا اللہ آپ ہی ہماری زندگیوں کو بدل دیجئے۔ ہم گناہوں کی جس دلدل میں پھنس چکے ہیں، ہمیں وہاں سے نکال دیجئے کہ یہ گناہ ہم نالائقوں سے نہیں چھوٹتے، آپ ہی توفیق عطا فرما دیجئے۔ ہم بہت بے ہمت ہیں ہمیں ہمت عطا فرمائیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ’’اللّٰھم ارحمنی بترک المعاصی ولا تشقنی بمعصیتک‘‘ اے اللہ مجھ پر وہ رحمت نازل کردے جس سے میں آپکی نافرمانی چھوڑ دوں اور مجھے اپنی نافرمانی سے شقی اور بد بخت نہ بنا۔

ہمارا مالک بڑا غفور و رحیم ہے وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے، وہ ہمیں جہنم میں ڈالنا نہیں چاہتا، وہ ہمیں ناکام نہیں کرنا چاہتا۔ تبھی تو بار بار ہمیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر سمجھا رہا ہے کہ اے غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں سمجھ جاؤ۔ کہاں تک بھاگو گے؟ آخر ایک دن لوٹ کر میری طرف آنا ہے تو آج دنیا میں ہی میری طرف لوٹ آؤ کہ جب آخرت میں میرے سامنے آؤ تو میں تمہیں جنت میں داخل کردوں جو مومنین کے لئے بنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں ’’اگر تم شکرگزار رہو اور ایمان لے آؤو تو اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کریگا‘‘ ﴿نسائ ۷۴۱﴾۔ حدیثِ قدسی میں ہے کہ ’’جو بندہ میرے قریب ایک بالشت آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب چلا جاتا ہوں اور جو بندہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو ہاتھ اُس کے قریب چلا جاتا ہوں جو بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اُس کو طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔ دونوں جہانوں کا مالک، پروردگار عالم ہمیں محبت کی دعوت دے رہا ہے، مالک اپنے غلام کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھا رہا ہے اور ہم کیسے بد بخت اور نالائق ہیں کہ مالک کے ہاتھ کو نہیں تھامتے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں تو ہم اُن کے ہاتھ پکڑ کر اپنے راستے پر لے جاتے ہیں‘‘ ﴿العنکبوت ۹۶﴾۔ لیکن ہم سے تو یہ کوشش بھی نہیں ہوتی۔ مانا کہ گناہ چھوڑنا ہمارے بس میں نہیں، دین پر چلنا ہمیں مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن ایک بار خلوصِ دل کے ساتھ ہمت کرکے اللہ کے راستے میں کوشش تو کرو، اللہ تعالیٰ تمہارا ہاتھ تھام کر اپنے راستے پر لے جائیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ارے ایسے مالک کا حق تو اس سے بھی ادا نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی لمحہ سجدہ سے سر نہ اُٹھائیں۔ لیکن اُسکی بندگی کا حق ادا کرنا تو ہمارے بس میں نہیں، کم از کم اُس کی نافرمانی سے تو باز آجائیں۔ آئیے ہم سب خلوصِ دل سے اس بات کا عہد کریں کہ اب ہمیشہ اپنے ہر عمل میں اپنے مقصدِ حیات یعنی اللہ کی رضا کو پیشِ نظر رکھیں گے۔ جب ہم اللہ کے ہی ہیں تو کیوں نہ حقیقت میں بھی اللہ کے ہو جائیں اور یہ اعلان کردیں
نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا
اُنہیں کا اُنہیں کا ہوا جا رہا ہوں
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197394 views A Simple Person, Nothing Special.. View More