آئیے !واقعۂ معراج سے کچھ سیکھیں

سائنس داں کہتے ہیں کہ انسان قدرت کی عطاکردہ صلاحیتوں میں سے صرف پانچ فی صدصلاحیتیں ہی اب تک استعمال کرسکاہے ۔آج ہم آپ کوایک ایسا حیرت انگیز،عقلوں کودنگ کرنے والے اورپوری دنیاکوسوچنے پرمحبورکردینے والے ایسے واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں جسے آج دنیاکے بڑے بڑے سائنس داں بھی سمجھنے سے قاصرہیں۔ایسالگتاہے کہ اس واقعے میں انسانی عقل وخردکی ساری صلاحیتیں صرف کی گئی ہوں ۔یہ واقعہ ہمارے آقانبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔اس واقعے کوسفرمعراج کہتے ہیں ۔اس واقعے کوہوئے چودہ سوسال سے زائدہوچکے مگرآج تک ریسرچ ہورہی ہے اورآئندہ بھی ہوتی رہے گی ۔یہاں سوال یہ ہے کہ جب سائنس دانوں نے خودہی اعتراف کرلیاکہ انسان اب تک صرف پانچ فی صدصلاحیتیں ہی استعمال کرسکاہے توجس واقعے میں ساری صلاحیتیں صرف کردی گئی ہوں اسے پانچ فی صدعقل والاانسان کیسے سمجھ سکتاہے ؟

واقعۂ معراج تاریخ انسانی کاوہ عظیم ترین اورحیرت ناک واقعہ ہے جوآنے والے وقت میں محیرالعقول عجائبات وانکشافات کاپیش خیمہ ثابت ہوا،جس نے تحقیق وجستجوکے بنددروازے کھٹکھٹائے اورجوخلاؤں کے سفرکارہ نماثابت ہوا۔سچائی یہ ہے کہ اگریہ عظیم سفرنہ کیا جاتا توسائنس وٹکنالوجی وہ عروج کبھی حاصل ہوپاتا جو آج اس کاطرۂ امتیازہے۔سفرمعراج تین مرحلوں میں مکمل ہوا۔پہلامرحلہ حضرت ام ہانی کے گھر سے بیت المقدس تک،اسے اسراء کہاجاتاہے ۔دوسرامرحلہ بیت المقدس سے لے کرآسمانوں تک اورتیسرامرحلہ آسمانوں سے لے کرعرش اعظم یالامکاں تک ۔ان دومرحلوں کومعراج کہاجاتاہے ۔ایک محقق نے آسمانوں کے آگے کے سفرکواعراج بھی کہاگیاہے ۔

قرآن کریم میں اس سفرکے حوالے سے ارشادہے :
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ
ترجمہ:پاک ہے و ہ ذات جوراتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیاجس کے ارداگرد ہم نے برکت رکھی تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔

مسجدحرام سے مسجداقصاتک کاسفرجسے قرآن کریم نے اسراء کانام دیاہے ،اس کامنکرکافرہے کیوں کہ یہ سفرنص قرآنی سے ثابت ہے اورپھرمسجداقصاسے سدرۃ المنتہیٰ کاسفرجسے سفرمعراج کہاجاتاہے ،یہ احادیث صحیحہ معتبرہ ،معتمدہ سے ثابت ہے اس لیے ا س کامنکرگمراہ ہے ۔

یہ واقعہ کب پیش آیااس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتاالبتہ عام سیرت نگاروں کاموقف یہ ہے کہ مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کرنے سے ایک یاڈیڑھ سال قبل رجب المرجب کے مہینے کی ستائیس تاریخ کویہ عظم الشان واقعہ ظہورپذیرہوااوروہ دن پیرکاتھا اوراس وقت حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی عمرشریف ۵۲سال کی تھی۔براق کے ذریعے یہ سفرہوا۔براق کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کاجسم گھوڑے جیسااورمنہ انسانوں جیساتھا،اس کے دوپرتھے ،رنگ چمک داراوربالکل سفیدتھااورقد گوش درازسے اونچااورخچرسے نیچا تھا ۔براق ، برق سے بناہے جس کے معنی بجلی کے ہوتے ہیں۔اس سے سمجھ میں آتاہے کہ اس کی رفتاربجلی کی سی تھی ۔ گویا یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ خدائی راکٹ تھا ۔بجلی کی رفتارسائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل سکنڈبتائی ہے ۔ظاہرہے جب بجلی کی یہ رفتارہوسکتی ہے توبراق جوخدائی راکٹ تھا اس کی سرعت رفتارکااندازہ کیسے لگایاجاسکتاہے ۔

جس شب حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم معراج کوتشریف لے گئے اس دن آپ کوکفارنے بہت ستایاتھا ۔اس تناظرمیں کہاجاسکتاہے کہ حضورکی دل جوئی اوران کی خوش نودی کے لیے اﷲ عزوجل نے انہیں اپنے دیدارسے مشرف فرمایا۔ہوایوں کہ پیارے آقاصلی اﷲ علیہ وسلم اپنی چچازادبہن حضرت ام ہانی کے گھرمیں آرام فرمارہے تھے ۔ایک روایت کے مطابق حضورصلی اﷲ علیہ وسلم حطیم میں آرام فرماتھے کہ حضرت جبرئیل حاضرہوئے اورآپ کوبڑے ادب واحترام سے جگایااورانہیں سفرمعراج کی خوش خبری سنائی اور پھربراق کے ذریعے اس سفرکاآغازہوا۔سب سے پہلے آپ بیت المقدس تشریف لے گئے جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرحضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاے کرام آپ کی تشریف آوری کے منتظرتھے ۔آپ نے ان کی امامت فرمائی ۔اس سے سمجھ میں آیاکہ آپ امام الانبیاء اس لیے بھی ہیں کہ تمام نبیوں نے آپ کی اقتدامیں نمازادافرمائی ۔حقیقی معراج کاسفریہیں سے شروع ہوا۔معراج ،عروج سے بناہے جس کے معنی بلندی کے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ یہاں سے بلندیوں بلفظ دیگرآسمانوں بلکہ آسمانوں سے آگے کاسفرشروع ہوا ۔اس طرح کہاجاسکتاہے کہ کعبہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کاسفرزمینی سفرتھا اوربیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک اونچائی کاسفرتھا اسی لیے اسے سفرمعراج کے نام سے موسوم ہوا۔

براق کی برق رفتاری کاعالم یہ تھا کہ نگہِ انسانی جہاں تک کام کرتی ہے اس کاقدم وہاں تک پڑتاتھا ۔ساتوں آسمانوں پرمختلف انبیاسے ملاقاتیں ہوئیں ۔پہلے آسمان پرحضرت آدم علیہ السلام،دوسرے پرحضرت عیسیٰ اورحضرت یحییٰ علیہما السلام،تیسرے پرحضرت یوسف علیہ السلام،چوتھے پرحضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پرحضرت ہارون علیہ السلام،چھٹے پرحضرت موسیٰ علیہ السلام اورساتویں پرحضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتیں فرمائیں۔ایسا لگ رہاتھا کہ سبھوں کوآپ کی آمدکاانتظارہو۔جب ساتوں آسمان گزرگئے توایک ایسابھی مقام آیاجہاں حضرت جبرئیل نے بھی ساتھ چھوڑدیاپھرحضورتنہاآگے تشریف لے گئے ۔وہاں تک کسی انسان کاگزرتودرکناکسی بڑے سے بڑے مقرب فرشتے کی بھی رسائی نہیں ہے ۔آپ کوخداکاقرب حاصل ہوا،آپ کوجنت ودوزخ کے مناظرمجسم کرکے دکھائے گئے اور اﷲ نے حضورکی امت کے لیے انہیں نمازجیساعظیم الشان تحفہ عنایت فرمایا۔سفرمعراج سے قبل صرف دونمازیں فرض تھیں ،سفرمعراج کے بعدپانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئیں ۔اس سفرمیں نمازکوپچاس وقتوں میں اداکرنے کاحکم دیاگیاتھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر پھرگھٹتے گھٹے پانچ رہ گئیں ۔اس پورے واقعے کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں درج ہے ۔معراج کادورانیہ چاہے کتنے بھی عرصے پرمحیط ہو مگراﷲ کی قدرت کہ وقت تھم گیااوریہ پوراسفر پلک جھپکتے ہوئے مکمل ہو گیا کیوں کہ جس بسترپرآپ آرام فرمارہے تھے وہ ابھی تک گرم تھا ،دروازے کی کنڈی ابھی تک حرکت کررہی تھی او ر وضو کا پانی ابھی تک بہہ رہاتھا ۔

سفرسے واپسی پرصبح کوحضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے اس غیرمعمولی واقعے کاتذکرہ اپنی چچازادبہن ام ہانی سے کیاتوانہوں نے آپ سے عرض کیاکہ خدارا!اس واقعے کولوگوں کے سامنے نہ بیان فرمائیں ورنہ وہ آپ کامذاق اڑائیں گے اورآپ کوپریشان کرنے کاایک بہانہ ان کومل جائے گامگرہمارے آقاے کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے بڑے پرعزم لہجے میں فرمایاکہ میں ضروراس کاتذکرہ کروں گا۔چنانچہ جب حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے اس واقعے کااعلان فرمایاتوکفارمکہ نے اس کابے حدتمسخراڑایااورحضورکوپریشان کرنے ،انہیں جھوٹاثابت کرنے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی ۔جب یہی بات حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کومعلوم ہوئی توانہوں نے فوراًاس کی تصدیق کردی ۔یہی وجہ ہے کہ حضورنے ان کالقب صدیق رکھا۔یہ لقب اتنامشہورہواکہ ان کے نام کاجزوبن گیا۔

حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کااس واقعے کوظاہرکرنے کاعزم ظاہرکرناخوداس بات کی دلیل ہے کہ واقعۂ معراج بحالت جسمانی ہواہے ،بحالت خواب نہیں جیساکہ بعض لوگوں کی جانب سے کہاجاتاہے ۔کیوں کہ خواب کی وہ حیثیت نہیں ہوتی جوذاتی مشاہدات واحساسات کی ہوتی ہے ۔اگرمعراج کایہ واقعہ خواب ہوتا تو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم ممکن تھا کہ اس کوظاہرکرنے کاعزم اس طرح ظاہرنہ فرماتے جس طرح آپ نے ممکنہ خطرات کے پیش نظربھی ا س کے ظاہرکرنے سے گریز نہ کیا اور پھراگریہ خواب ہوتاتوکفارمکہ اس کی اتنی زبردست مخالفت کیوں کرتے ،خواب توخواب ہوتے ہیں ان کی کوئی عملی حقیقت نہیں ہوتی مگرچوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سفربحالت جسم وروح ہواہے اس لیے وہ اس کی مخالفت پرآمادہ تھے ۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ آخریہ آسمانوں کاسفرایک ہی رات کے چھوٹے سے حصے میں کیسے مکمل ہوگیا۔

معراج کے واقعے کوخواب یابحالت ہوش وہواس میں ہونے کی بحث صدیوں سے چلی آرہی ہے مگراہل ایمان کوکبھی بھی اس میں کوئی پس وپیش نہ رہاکیوں کہ اہل ایمان جانتے ہیں کہ اﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمودات وواقعات کی حکمتیں اگر چھوٹی سمجھ میں نہیں سماسکیں تواپنی عقل وخردکوکنارے رکھ دیاجائے اور بلاچوں وچراحضورکی ہربات پرآمناوصدقنااورلبیک یارسول اﷲ کی آوازبلندکردی جائے ۔اورپھردوسری بات یہ ہے کہ یہ سفراﷲ نے کرایا،کسی انسان نے نہیں اوراﷲ توہرچیزپرقادرہے توکیسے اس محیرالعقول واقعے کوانسانی عقل کے مطابق پرکھاجاسکتاہے ۔؟اﷲ عزوجل نے جس آیت میں اس واقعے کاذکرفرمایاہے اس میں لفظ سبحان خود اس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ اس سفرکامحرک خودخداے بزرک وبرترہے۔سچی بات یہ ہے کہ واقعہ معراج کوسمجھناچھوٹے دماغ والے لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔
ممکن ہے کہ آج کامادی انسان یہ کہے کہ جیسے حضورچودہ سوسال پہلے آسمان پرگئے ویسے آج خلابازبھی خلاؤں کاسفرکررہے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ آج کے خلانوردوں کاسفرمعراج سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیونکہ چاندکا زمین سے اوسط فاصلہ صرف بانوے لاکھ چھبیس ہزارنوسوسترمیل ہے جب کہ سورج کا زمین سے فاصلہ نو کروڑتیس لاکھ میل ہے۔ ہمارے اس شمسی نظام کی وسعت دس یاپندرہ ارب میل ہے ۔ نظام شمسی کے علاوہ رات کو نظرآنے والے کروڑہا ستارے نظام شمسی سے باہر ہیں ۔ نبی آخرالزماں صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے بھی آگے تشریف لے گئے ۔ ان ستاروں کے زمین سے فاصلہ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ روشنی فی سیکنڈایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل کی رفتار سے سفر کرتی ہے ۔ا ن ستاروں میں ایسے ستارے ہیں جن کی روشنی زمین تک 100،200،500اور 1000 سال کے بعد پہنچ سکتی ہے ۔ صرف ہماری کہکشاں کے قطرکا طول ایک طرف سے تقریباًپچاس ہزارنوری سال اور دوسری طرف سے لاکھوں نوری سال ہیں ۔اندازہ لگائیے کہ یہ کہکشاں کتنی بڑی ہے۔مگرحیرت ہے کہ آقاے کائنات اس سے بھی آگے تشریف لے گئے ۔ پھرہماری کہکشاں کے علاوہ مزید۳کروڑ سے زائدکہکشائیں سائنس دانوں نے دریافت کی ہیں اور ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے اور کروڑوں نظام رکھنے والے سورج ہیں ۔ بعض کہکشائیں ہم سے۲۰کروڑنوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔تواندازہ کریں کہ زمین سے ان کا فاصلہ کتنالمبا ہے ؟ہمارے پیارے نبی نے اس سے بھی آگے ، ساتوں آسمان ، جنت دوزخ ، پھر کرسی اور پھر عرش تک سیرکی ہے۔ بھلا! سائنس دانوں کی خلانوردی اس عظیم سفرکے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔؟

سفرمعراج پرایک دوسرے پہلوسے بھی غورکیجیے۔جب بھی کئی نبی دنیامیں تشریف لایاتواس کو اﷲ نے اس زمانے کی طاقتوں کاجواب بنابھیجا۔حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام کی ہی مثال لے لیں ۔حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادوکابڑازورتھا ،اس زمانے کے جادوگراپنے اس جادوکے زورپربڑے بڑے مقابلے سر کرلیاکرتے تھے چنانچہ جب حضرت موسیٰ نے خداکی وحدانیت کااعلان فرمایااورفرعون کی خدائی کوچیلنج کیاتواس نے اپنے جادوگروں کوحضرت موسیٰ سے مقابلے کے لیے اتاردیا۔انہوں نے میدان میں اپنی اپنی رسیاں ڈالیں تووہ جادوسے سانپ بن کرحضرت موسی کی طرف بڑھیں مگرحضرت موسی کاعصااﷲ کی قدرت سے اژدہابن گیااوران تمام جادوکے سانپوں کونگل گیا۔نتیجہ یہ ہواجادوگرمسلمان ہوگئے ۔یہ پوراواقعہ قرآن کریم میں مذکورہے ۔

یوں ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب وحکمت کابڑازورتھا ۔اﷲ نے حضرت عیسی کوایسے معجزے کے ساتھ مبعوث فرمایاکہ وہ مردے پردست شفارکھتے تووہ زندہ ہوجاتا۔ہرنبی اپنے زمانے کاجواب بن کرتشریف لایا۔سب سے آخرمیں ہمارے آقاصلی اﷲ علیہ سلم جلوہ فرماہوئے ۔آپ خاتم النبین ہیں،آپ کے بعدکوئی نبی آنے والانہیں ۔اﷲ عزوجل کومعلوم تھاکہ ہمارے نبی کی امت میں سائنس وٹکنالوجی زورہوگا،لوگ اس کے بل پرترقی کے جھنڈے گاڑیں گے ، خلاؤں کا سفرکریں گے ،کائنات کے مظاہرپرغورکریں گے ، تحقیق وریسر چ کے ذریعے پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔لہٰذااﷲ عزوجل نے ہمارے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کوامت محمدیہ کے ہرمسئلے کاجواب بناکرمبعوث فرمایا،انہیں قرآن عطاکیاجوقیامت تک کے لیے انسانوں کے مسائل کاحل ہے ،ان کی سیرت دنیاکے سارے انسانوں کے لیے ہمیشہ رہ نمائی کے فرائض انجام دے گی ،ان کوسفرمعراج پربلایاگیاکہ یہ پیغام دیاجائے سائنس چاہے جس بلندی پرپہنچ جائے مگروہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفرمعراج کاپرتوبھی نہیں ہوسکتی۔ گویاسفرمعراج آج کی سائنس وٹکنالوجی کاجواب تھا ،واقعہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کوآج تک اس سفرکی حقیقت سمجھ میں نہ آسکی۔

اس پورے واقعے سے چندباتیں ہمیں سیکھنے کوملتی ہیں جوہرطبقے اورہرشعبۂ حیات کے لوگوں کے لیے ترقی وکامرانی کی کنجی ہیں:
(۱)انسان کوہمیشہ اﷲ عزوجل کے کاموں میں لگے رہناچاہیے ،اس کے بدلے اﷲ عزوجل اسے روحانی رزق عطافرماتاہے اوریہ روحانی رزق بظاہرمشکل حالات میں انسان کوہمیشہ تازہ دم رکھتے ہیں ۔واقعہ معرا ج کواس پس منظرمیں دیکھیے توسمجھ میں آئے کہ یہ سفرگویاایک روحانی رزق کی حیثیت رکھتاہے ۔جب کفارکے مظالم ایک حدسے پارہوگئے تواﷲ نے اپنادیدارکرادیااوران کے حوصلوں کوتازہ دم کردیا۔
(۲)انسان خواہ کتناہی نیک،سچا،ایمان داراورتقوی شعارہومگرمخالفین وحاسدین اسے پریشان کرنے کاکوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اس موقع پراپنے فیصلوں پرمستحکم رہنا،اپنے مشن میں ڈٹے رہنااورپامردی کے ساتھ حالات کامقابلہ کرنابھی ہمارے حضورکی سنت ہے ۔حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام محاسن جانتے ہوئے بھی کفارنے واقعہ معراج کی تکذیب کی اورآپ کوپریشان کرنے میں کوئی کوتائی نہیں کی مگروہ ذلیل وخوارہوئے ۔حضورکاکچھ بھی بگاڑنہ سکے ۔اہل ایما ن میں سے جسے بھی معلوم ہوتاگیاسب حضورکی تصدیق کرتے گئے ۔
(۳)سچادوست وہی ہے جوہرجائزکام میں آپ کاساتھ دے اوربغیرکسی حیل وحجت کے آپ کے ساتھ کھڑارہے ۔ایساکرناحضرت ابوبکرصدیق کی سنت ہے ۔جب سب حضورکی تکذیب کررہے تھے توسب سے پہلے حضرت ابوبکرنے حضورکی تصدیق فرمائی ۔
(۴)بات اگرسچی ہواورآپ کویقین کامل ہوتوپھراس کے اظہارسے پیچھے نہیں ہٹناچاہیے لیکن بات وہی ہوجس کاتعلق اعلائے کلمۃ اﷲ سے ہو،جس کاتعلق دین کی تبلیغ واشاعت سے ہو۔حضرت ام ہانی کے منع کرنے کے باوجودحضورکاواقعہ معراج کوظاہرکرنے کے لے عزم ظاہرکرنے سے ہمیں یہی سیکھنے کوملتاہے ۔
(۵)نمازانسانوں کے لیے خداکاایک اہم ترین تحفہ ہے جوحضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں عطاہواہے ۔معراج میں عطاکیے گئے اس تحفے کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایاگیاہے :الصلوۃ معراج المومنینیعنی نمازمومنوں کی معراج ہے۔یہاں معراج کہنے کامطلب یہ ہے کہ جیسے معراج میں ہمارے آقاصلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ عزوجل کے جلووں کامشاہدہ فرمایااورانہیں نے انہیں اپنے قرب خاص سے مشرف فرمایااسی طرح نمازبھی بندوں کواﷲ سے قریب کردیتی ہے ۔نمازکے ذریعے مومن کومعراج یعنی عروج حاصل ہوتاہے بلفظ دیگروہ بلندمقام ومرتبے پرفائزہوجاتاہے ۔اس لیے اس تحفے کوہمیں حرزجاں بناناچاہیے ۔
(۶)معراج کاواقعہ بتاتاہے کہ کائنات کواﷲ نے انسانوں کے لیے بنایاہے ،پوری کائنات انسانوں کے لیے تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔انسان آج چاندتک پہنچ چکاہے ،سورج کوشعاؤں کوگرفتارکررہاہے ، ہواؤں کومسخرکرنے کی فکر میں ہے۔انسان اس پرغورکرے اورقدرت کے بنائے ہوئے نظام پرریسرچ کرے تاکہ قدرت کی بنائی ہوئی حکمتوں کے مظاہردنیاکے سامنے پیش ہوسکیں ۔
(۷)معروف محقق علامہ غلام رسول سعیدی نے ایک مقام پرلکھاہے :مادی انسانوں نے ترقی کی اور اُن کی ترقی کی معراج یہ ہے کہ چاند پر پہنچے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ چاند پر بھی مٹی ہے، وہاں سے بطور سوغات مٹی کے ڈھیلے لائے، تو یہ مٹی سے چلے، مٹی تک پہنچے اور جو لے کر آئے وہ بھی مٹی تھی۔ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے ذکر سے چلے، اﷲکے ذکر تک پہنچے اور جو تحفہ لے کر آئے وہ بھی اﷲکا ذکر ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مادی معراج میں انسان مٹی سے آگے نہیں جاسکتا اور روحانی معراج میں مٹی سے بنا ہوا انسان خدا تک جا پہنچتا ہے۔‘‘
تیری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
(۸)شاعرمشرق علامہ اقبال نے سفرمعراج کی حکمتوں اوراسباق کوچندجملوں میں سمیٹ دیاہے ،فرماتے ہیں:
سبق ملاہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت میں ہے گردوں
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 172577 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More