فحش گوئی

راستے میں اچانک آمنا سامنا ہونے پر ایک دوست نے دوسرے کو دور سے ہی بُلند آواز میں پکارا.......﴿دو چار گالیاں نچھاور کرتے ہوئے﴾ ہاں بھئی کیا حال ہے؟ .......﴿پھر گالیوں سے نوازتے ہوئے﴾ کہاں رہے اتنے دن؟ دوسرے دوست نے بھی........ ﴿گالیوں کی بوچھاڑ میں﴾ جواب دیا اور حال احوال دریافت کیا۔ یہ تبادلہ خیال چند منٹ تک ہوتا رہا جس کا زیادہ نہیں تو نصف حصہ یقینًا فحش کلامی اور گالیوں پر مشتمل تھا۔ اور پھر اسی طرح ایک دوسرے کو نوازتے اور ہنستے مسکراتے ہوئے اپنی اپنی راہ لی۔ غور کریں تو اس طرزِ ملاقات پر یقینًا حیرت ہوتی ہے۔ یہ کونسا طریقہ ہے ایک دوسرے سے تعلقات نبھانے کا۔ مزید حیرت کی بات یہ کہ جانبین کو احساس تک نہیں ہوتا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو کن کن خطابات سے نوازا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر کوئی اجنبی اس طرح ہمکلام ہوتا تو اس کا ردّعمل بہت مختلف ہوتا ہے۔ لیکن دو دوستوں کو اس طرح مخاطب ہوتے ہوئے کیوں ذرا سی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں ہوتی اور یہ سب سنتے ہوئے ماتھے پر شکن تک نمودار نہیں ہوتی۔

گلی محلے ہوں یا بازار، دفاتر ہوں یا کالجز، گھر ہوں یا مختلف تقاریب کی محفلیں، اس طرح کے مناظر ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں جہاں گفتگو میں فحش گوئی اور گالی گلوچ ایک لازمی جزو ہوتی ہے۔ یہ معاملہ صرف ان پڑھ اور جاہل طبقہ میں نہیں بلکہ وہ طبقہ جو اپنے آپ کو پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کرتا ہے وہ بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے دیندار اور شرع کے پابند لوگوں کی محفلیں بھی اس سے خالی نہیں ہوتیں۔ ہنسی مذاق، طنز و مزاح خواہ تحریری ہو یا تقریری فحاشی سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام نے مزاح کی اجازت دی ہے لیکن اسکی کچھ حدود و قیود بھی مقرر فرمائی ہیں جو طنزو مزاح کو بھی اخلاق اور تہذیب کے دائرہ کے اندر رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِوَالْبَغْیِ‘‘ ﴿نحل ۰۹﴾ یعنی اللہ منع فرماتا ہے بے حیائی اور منکر اور سرکشی سے‘‘۔ یہاں اگرچہ لفظ منکر کے مفہوم میں فحشائی بھی داخل ہے لیکن فحشائی کو اس کی انتہائی بُرائی اور شناعت کی وجہ سے الگ کر کے بیان فرمایا اور مقدم کیا۔ اسی طرح قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’فحاشی کے قریب نہ جاؤ‘‘۔

فحش گوئی اور بدگوئی اسلام کی تعلیمات اور اس کی خصوصیات کے منافی تو ہے ہی، انہیں کوئی شریف معاشرہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ انسان اپنے کلام سے پہچانا جاتا ہے اور اُس کی گفتگو اُس کے کردار اور شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ لوگوں کی نظروں میں بدکلام اور فحش گو کی عزت دو کوڑی کی بھی نہیں رہتی اور اس سے میل جول کوئی گوارہ نہیں کرتا۔ جناب عبداللہ بن مسعود(رض) راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن ﴿کی شان یہ ہے کہ وہ﴾ طعن و تشنیع یا لعنت کرنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی فحش گوئی اور بد زبانی اس کا شعار ہوتا ہے ﴿ترمذی﴾۔

بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو ناحق قتل کرنا ناانصافی اور ناشکری ہے۔

بعض لوگوں کو تو آپ دیکھیں گے کہ گالی کی اس قدر عادت ہوتی ہے کہ اُن کی کوئی بات گالی سے خالی نہیں ہوتی اور اُنہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر بُرے غیر مہذب اور معیوب الفاظ اپنی زبان سے ادا کر رہے ہیں۔ کیا ہماری فطرت مسخ ہو چکی ہے یا اس معاملے میں ہم بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں اچھے اور بُرے کلام میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ اس کا جواب ہمیں حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشادِ مبارک میں ملتا ہے کہ "جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرے"﴿بخاری﴾ ۔ انسان کی طبیعت بدکاموں کو چاہتی ہے لیکن یہ شرم و حیا ہی ہے جو انسان کے اور برائی کے بیچ آڑ بن جاتی ہے۔ یہ ہی انسان میں اچھے اور برے کلام کے بیچ فرق کا احساس پیدا کرتی ہے۔ لیکن انسان جوں جوں شرم و حیا کا گلا گھونٹتا رہتا ہے، بُرائی کا احساس اُس کے دل سے کم ہوتا رہتا ہے، اُس کی ہچکچاہٹ عادت میں بدلتی جاتی ہے اور جب بلکل ہی شرم و حیا کا جنازہ نکل جاتا ہے تو پھر اس حدیث کا مصداق بن جاتا ہے یعنی جو چاہتا ہے بولتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے صحیح یا غلط اس کی قطعًا فکر نہیں کرتا۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس کے دل میں شرم وحیا کا مادہ موجود ہوتا ہے وہ گالی گلوچ اور فحش گوئی کرنا تو دور کی بات سننے کی تاب بھی نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس بعض لوگوں کے لئے یہ معمول کی بات ہے۔ یہاں تک کہ گھر کے بڑوں اور عورتوں کے سامنے بھی زبانوں پر قابو نہیں رہتا۔ اسی کا اثر ہے کہ بعض عورتیں بھی زبان سے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فحش جس چیز میں بھی ہوتا ہے اس کی حیثیت بگاڑ دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوشنما بنا دیتی ہے۔

بخاری میں حضرت عائشہ(رض)سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اپنے اوپر نرمی اختیار کر اور بچ سختی اور فحش گوئی سے۔

ایک حدیث میں ہے کہ شرم تو ایمان کی نشانی ہے۔

ہماری محفلوں کے اس متعفن ماحول کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو والدین اور بڑے بوڑھوں پر کیونکہ انسان کی سب سے پہلی ذہن سازی یہیں سے ہوتی ہے اور جب کوئی بچہ اپنے بڑوں کی زبان سے ایسی بے ہودہ گفتگو سنے گا تو اُس کے دل سے رفتہ رفتہ اس کی بُرائی نکل جائے گی اور وہ اسے اپنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرے گا ۔ یہ قابل عبرت واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا کہ ابھی چند دن پہلے میں کہیں بازار سے گزر رہا تھا اور میرا چار سال کا بھانجا میری انگلی تھامے میرے ساتھ تھا کہ اچانک قریب ہی دوکان پر کھڑے ایک شخص نے کسی کو گالی دی میں نے کوئی توجہ نہ کی اور اپنے دھیان چلتا رہا کہ میرا چار سال کا بھانجا مجھ سے مخاطب ہوا "ماموں ماموں وہ اُس آدمی نے دوکان والے کو گالی دی اُسنے کہا کہ ...........﴿گالی بتائی﴾"۔ میں نے جب اس معصوم بچے کی زبان سے جس کو ابھی اچھائی برائی کا بھی شعور نہیں یہ گالی کے الفاظ سنے تو میرا خون کھول اُٹھا میرا دل چاہا کہ .........لیکن جب میں اُس گالی دینے والے آدمی کی طرف متوجہ ہوا تو وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کے بال بھی سفید ہو چکے تھے۔ بہر حال میں اپنے بھانجے کو ڈانٹنے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ لیکن پھر سارے راستے میرا دل کڑھتا رہا اور میرا ذہن اسی کشمکش میں رہا کہ ہمارے جوان ہمارے بوڑھے اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سوغات دے رہے ہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ بچوں کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور وہ جو کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں وہ اُن کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہے۔

حضرت صدیق اکبر(رض) سے منقول ہے کہ ’’جب انسان روزانہ بیدار ہوتا ہے تو اس کے اعضا زبان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دن بھر تو سچائی و راستی پر قائم رہ کر فضول گوئی سے احتراز کرنا کیونکہ اگر تو درست اور ٹھیک رہے گی تو ہم بھی صحیح رہیں گے اور اگر تو غلط راہ پر پڑ گئی تو ہم بھی کج روی پر آجائیں گے‘‘۔ امام غزالی(رح) فرماتے ہیں کہ ’’اس کے معنی یہ ہیں کہ زبان کی باتیں اعضا انسانی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکیزہ کلام تو قرب خداوندی کا سبب بنتا ہے جب کہ گندا کلام ذلت و خوار کر دیتا ہے‘‘۔ حضرت مالک بن دینار(رح) کا قول بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے انہوں نے فرمایا کہ ’’جب تمہارے دل میں تنگی، اور جسم میں کاہلی و سستی، اور رزق میں کمی ہونے لگے تو سمجھ لو کہ تم نے کچھ لا یعنی اور بیکار باتیں کر لی ہیں‘‘۔

اس سے بچنے کے بہت سے طریقے علما نے لکھے ہیں۔ ابن ابی مطیع(رح) فرماتے ہیں:’’ انسان کی زبان کمین گاہ میں چھپے شیر کی طرح ہے کہ جونہی اسے موقع ملے تو حملہ کرے لہٰذا اس زبان کو خاموشی اور سکوت کی لگام دو گے تو تمام آفات سے محفوظ ہو جاؤ گے‘‘۔

انسان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اُس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور کل جب حشر کے دن تمام مخلوقات کے سامنے یہ نامہ اعمال پڑھ کر سنایا جائیگا تو کس قدر اذیت ہوگی۔ اسلئے ہر بے ہودہ ، فحش اور لغو کلام سے احتراز ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197401 views A Simple Person, Nothing Special.. View More