وقائع سید احمد شہید

وقائع سیّد احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ
سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ بہت کریم ہے، بہت رحیم ہے اور بہت مہربان. وہ جب چاہتا ہے تو بغیر کسی محنت کے اپنے بندوں کو بڑے بڑے انعامات عطا فرما دیتا ہے. جی ہاں! بعض اوقات گھر بیٹھے ایسی نعمت مل جاتی ہے کہ. انسان خوشی، حیرت اور شُکر میں ڈوب جاتا ہے. چند دن پہلے بندہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا. میری ڈاک میں ایک بھاری بھر کم کتاب بھی تھی. پہلے دن تو ڈاک کھولنے کا موقع ہی نہیں ملا. دوسرے دن کھولی تو اُس کتاب کی زیارت نصیب ہوئی. یہ تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے. ’’وقائع سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ‘‘. اس کا نامِ نامی، اسم گرامی ہے. چھاپنے والوں نے ایک ہی جلد میں یہ کتاب سمیٹنے کے لیے اسے بہت باریک کاغذ پر چھاپا ہے. چنانچہ صفحہ الٹتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کہ ایک کی بجائے کئی صفحے نہ الٹ جائیں. یہ کسی ایک مصنف کی تصنیف نہیں ہے بلکہ ریاست ٹونک کے نواب صاحب مرحوم(رح) کے حکم پر ’’حضرت سید احمد شہید(رح)‘‘ کے رفقا اور عزیز و اقارب کی حکایات پر مشتمل ہے. اکثر واقعات ’’حضرت سید بادشاہ(رح)‘‘ کے خادم جناب دین محمد صاحب(رح) کی زبانی ہیں. یہ کتاب کئی ضخیم رجسٹروں میں لکھی ہوئی ’’تکیہ رائے بریلی‘‘ ﴿حضرت سیّد صاحب(رح) کے آبائی وطن﴾ میں محفوظ تھی. اتنی بڑی کتاب کو کون چھاپتا اور کیسے چھاپتا؟. چنانچہ جس کی قسمت جاگتی وہ ’’تکیہ شریف‘‘ جاکر کچھ کچھ دیکھ اور پڑھ آتا تھا. مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی(رح) تو خود ماشا اللہ ’’حضرت سیّد بادشاہ(رح)‘‘ کے خاندان سے تھے. انہوں نے اس کتاب کو مکمل پڑھا اور پھر ان الفاظ میں خراج تحسین پیش فرمایا ’’میں نے ’’وقائع احمدی‘‘ کے اس دفتر کو جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے لفظ بلفظ پڑھنا شروع کیا، جو وقت اس ذخیرہ کے مطالعہ اور تلخیص میں گزرا وہ عمر کے بیش قیمت ترین لمحات میں سے تھا، قلب پر ان حالات و واقعات کا عکس پڑتا تھا، ان واقعات نے جو سادی پوربی اردو میں بیان کئے گئے تھے بار بار دل کے ساز کو چھیڑا، بار بار قلب کو ایمانی حرارت بخشی، بار بار آنکھوں کو غسلِ صحت دیا، اہل یقین و مقبولین کی صحبت کے جو اثرات بیان کئے گئے ہیں ان واقعات کے مطالعہ اور ان کتابوں کی ورق گردانی کے دوران میں ان کا بارہا تجربہ ہوا، اور صاف محسوس ہوا کہ یہ وقت ایک ایمانی اور روحانی ماحول میں گزر رہا ہے، معلوم نہیں کہ ان اللہ کے بندوں کے انفاس قدسیہ اور اُن کی صحبت میں کیا تاثیر ہوگی جن کے واقعات کے مطالعہ اور جن کے حالات کے دفتر پارینہ کی ورق گردانی میں یہ تاثیر ہے ﴿مقدمہ وقائع احمدی﴾

پھر ایسا ہوا کہ ہمارے زمانے میں حضرت سید احمد شہید(رح) کے عاشق زار حضرت اقدس سید نفیس الحسینی شاہ صاحب(رح) نے اس ’’نافع و مقبول‘‘ کتاب کو شائع فرما دیا. اب یہ کتاب لاہور میں بآسانی ملتی ہے اور ہر مسلمان اپنی استعداد کے مطابق اس سے نفع حاصل کر سکتا ہے. میرے ایک قریبی ساتھی جو ماشا اللہ . حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب(رح) کے خلیفہ مجاز بھی ہیں. انہوں نے مجھے یہ کتاب بھجوا دی. اپنی گوشہ نشینی کی وجہ سے مجھے اس کے شائع ہونے کا علم نہیں تھا. پہلے ایک دو دن تو میں کتاب کی ’’آزاد سیر‘‘ کرتا رہا. میرا خیال تھا کہ میں اتنی ضخیم کتاب کے لئے اپنے کاموں سے وقت نہیں نکال پاؤں گا. چنانچہ مختلف مقامات سے کتاب کے کئی صفحات پڑھ ڈالے. کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ کئی افراد کو حضرت سید احمد شہید(رح) نے اصرار فرما کر اپنے پاس بُلایا اور انہیں اپنے انفاس قدسیہ سے فیض یاب فرمایا. بعد میں وہ لوگ حضرت سید صاحب(رح) کو پوری زندگی دعائیں دیتے تھے. بالکل اسی طرح تیسرے دن میری توجہ بھی کتاب کے مکمل مطالعہ کی طرف خود ہی مائل ہوگئی. اور اب تک الحمدللہ ایک تہائی سے زائد حصّہ تھوڑے ہی وقت میں ہو چکا ہے. اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے پوری کتاب پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے. اور اس سے خوب فیض یاب فرمائے ﴿آمین﴾. یہ ماشا اللہ بہت خوب کتاب ہے. آپ نے حضرت سید ابوالحسن علی ندوی(رح) کی رائے تو پڑھ لی. اب اُن کے بعد کسی اور کی گواہی کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے. کتاب چونکہ حکایات پر مشتمل ہے اس لئے کئی غیر ضروری باتیں بھی اس میں آگئی ہیں. حضرت سید صاحب(رح) کے رفقا کو سلام کہ انہوں نے اُنکی ایک ایک بات کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی. ورنہ آجکل تو اہم باتیں بھی منٹوں میں ’’ڈیلیٹ‘‘ ہو جاتی ہیں. بندہ کو تو الحمدللہ اس بابرکت کتاب سے بہت سکون مل رہا ہے. بارک اللہ، ماشا اللہ لاقوۃ الّا باللہ. حضرت سیّد احمد شہید(رح) کو اللہ تعالیٰ نے عجیب و غریب نعمتوں سے نوازہ. وہ ’’قطب الاقطاب‘‘تھے. یہ اولیا کرام کا بہت اونچا مقام ہے. حضرت سیّد صاحب(رح) مستجاب الدعوات بھی تھے. ہزاروں لاکھوں لوگوں کو اُنکی دعا سے فائدہ پہنچا. وہ اپنا ہر معاملہ ’’دعا‘‘ کے ذریعہ حل کرانے کے قائل تھے. جب بھی کسی کا کوئی مسئلہ انفرادی یا اجتماعی سامنے آتا تو اپنا سر ننگا کر کے بہت آہ و زاری سے دعا فرماتے. اور اللہ تعالیٰ اُنکی لاج رکھتا اور دعا قبول فرماتا. اس کتاب میں ایسے سینکڑوں واقعات مرقوم ہیں. حضرت سید صاحب(رح) مسلمانوں کی اصلاح کے لئے بہت فکر مند تھے. لوگوں کو شرک و بدعت اور گناہوں سے بچنے کی تلقین فرماتے اور اسی بات پر ’’بیعت‘‘ لیا کرتے تھے. اُن کے ہاتھ پر کئی کافر مسلمان ہوئے. بے شمار رافضی تائب ہو کر اہل سنت والجماعت میں شامل ہوئے. اور لاکھوں گناہگاروں نے اُن کے ہاتھ پر توبہ کرکے خالص اسلامی زندگی گزارنے کا سچا عہد کیا. اس کتاب میں اس طرح کے واقعات بہت پر اثر انداز میں بیان کئے گئے ہیں. دراصل حضرت سید احمد شہید(رح) اپنی ذات کو بھول چکے تھے. اُن کے دل تو کیا اُن کے حواس پر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُسکی محبت غالب آچکی تھی. چنانچہ وہ جدھر قدم اٹھاتے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت اُن کا استقبال کرتی تھی. صرف برّصغیر ہی نہیں بلکہ تبت، چین اور بخارا و افغانستان تک اُن کا یہ روحانی فیض اُن کی زندگی ہی میں پھیل چکا تھا. یہاں تک کہ کئی بے حیا اور فاحشہ عورتیں اُن کی بیعت میں آکر اللہ تعالیٰ کے راستے میں ’’ولیّہ‘‘ بن گئیں. حضرت سید صاحب(رح) کو نماز اور مسجد کا بہت اہتمام تھا. انہوں نے کتنے ہی مسلمانوں کو ’’پکّا نمازی‘‘ بنایا اور کتنی ہی ویران مسجدوں کو آباد فرمایا. وہ خود بہت شوق سے مسجدوں کی صفائی کرتے، انہیں پاک صاف کرتے. اور نئی مساجد بہت اہتمام سے تعمیر اور آباد کراتے تھے. اس کتاب میں حضرت سیّد صاحب(رح) کی زندگی کے اس پہلو پر آپ کو کئی عجیب واقعات ملیں گے. اور بھی بہت کچھ اس کتاب میں مذکور ہے. مگر سب سے بڑھ کر جو بات ہے وہ حضرت سید صاحب(رح) کی ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ سے محبت ہے. اللہ اکبر کبیرا. حضرت سیّد صاحب(رح) کسی بھی عمل اور کسی بھی کیفیت کو ’’جہاد‘‘ کے برابر نہیں سمجھتے تھے. وہ ہمیشہ اچھے سے اچھے اسلحہ کی جستجو میں رہتے تھے. اور خود بھی ہتھیار باندھتے تھے. اُن کے بعض بڑے مریدوں نے جب اس پر اعتراض کیا تو حضرت سیّد صاحب(رح) نے بہت جلال میں اُنکو تنبیہ فرمائی. اور انہیں بتایا کہ جہاد کے بارے میں یا جہادی اسلحے یا حُلیے کے بارے میں اگر دل میں کوئی اعتراض لاؤ گے تو تمہارا سب کچھ برباد ہو جائے گا. جہاد تو وہ مبارک عمل ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کو حکم فرمایا ہے. اور جہاد ہی کی برکت سے کفار نا ہنجار کی گردن ٹوٹتی ہے اور اسلام پھیلتا ہے. حضرت سید صاحب(رح) فرماتے تھے کہ لوگو! اگر جہاد نہ ہوتا تو معلوم نہیں تم اور ہم آج کس حالت میں ہوتے. یہ جہاد کی برکت ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں. یہ کتاب جہاد کے متعلق ایک اہم اور مدلل دستاویز ہے. حضرت سیّد صاحب(رح) نے کئی مقامات پر فرمایا کہ. کوئی شخص ولی اور قطب بن جائے. مگر جہاد کا رتبہ ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہے. حضرت سید صاحب(رح) کے خاص مرید اور خلیفہ حضرت حاجی عبدالرحیم صاحب(رح) کے بعض جہادی اقوال بھی اس کتاب میں بہترین سند کے ساتھ مذکور ہیں. حضرت حاجی عبدالرحیم صاحب(رح) تمام دیوبندیوں کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی کے دادا پیر ہیں. تیرہویں صدی میں جب مسلمان غفلت، گمراہی. اور غلامی میں بُری طرح دھنس چکے تھے. اللہ تعالیٰ نے اُنکی رہنمائی کے لئے حضرت سید احمد شہید(رح) کو مجدّد بنا کر کھڑا کیا. حضرت سید صاحب(رح) کے پاس علم بھی تھا، روحانیت بھی تھی. اور جہاد بھی تھا. پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو خاص تأثیر اور توفیق بھی عطا فرمائی تھی. اور وہ اسلامی احکام کی ترتیب سے بھی واقف تھے کہ. کونسا عمل کتنا اہم ہے. اس کتاب میں ’’مجاہدین‘‘ کے لئے اصلاح اور نظم و ضبط کا بہترین سامان موجود ہے. اور اسی طرح اُن ’’بے بنیاد عناصر‘‘ کے لئے بھی بہت سے اسباق ہیں. جو اپنے جہاد کے لئے کوئی مضبوط رُخ متعین نہیں کرتے. بلکہ ہر بھونکنے والے کتّے کے پیچھے پتھر لیکر بھاگ پڑتے ہیں. اور کسی بھی جماعت کو منظّم اور مضبوط نہیں ہونے دیتے. حضرت سیّد احمد شہید(رح) جہاد کے شیدائی تھے. اور اتنے بڑے ’’شیخ طریقت‘‘ ہو کر بھی سلوک و احسان کو جہاد کے تابع قرار دیتے تھے. مگر جہاد کے ساتھ اس محبت اور عشق کے باوجود انہوں نے کئی مقامات پر اپنے ساتھیوں کو. ہتھیار تک نہیں باندھنے دئیے. اور کئی مقامات پر مخالفین سے معاہدے کئے. اورکئی مقامات پر اپنے اندر کے جذباتی عناصر کو سختی سے فرمایا کہ خبردار کوئی حملہ یا گڑ بڑ نہ کرے ورنہ ہم سزا دیں گے. یا اپنی جماعت سے نکال دیں گے. ایسے مواقع پر ممکن ہے کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے الگ ہوئے ہوںکہ. سید صاحب(رح) پہلے تو جہاد کی بہت باتیں کرتے تھے اب ان کی غیرت کہاں گئی؟. لیکن اس کتاب میں اسطرح کے لوگوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے. البتہ بعض ایسے لوگوں کا تذکرہ ضرور ہے جو سید صاحب(رح) کے اچھا کھانے اور پہننے پر اعتراضات کرکے کچھ لوگوں کو توڑ گئے. بے شک اُس زمانے کے لوگ خوش نصیب تھے کہ اُنکو حضرت سید احمد شہید(رح) جیسا رہنما، امام اور امیر ملا. اور وہ لوگ سعادتمند تھے جنہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر حضرت سید صاحب(رح) کا ساتھ دیا اوراپنی آخرت بنالی. ہمیں حضرت سیّد احمد صاحب شہید(رح) کا زمانہ تو نہیں ملا. مگر اُنکی لذیذ حکایتوں پر مشتمل کتاب ’’وقائع احمدی‘‘ مل گئی ہے. ہم اس کتاب کے آئینے میں اپنا بہت کچھ سنوار سکتے ہیں. یا اللہ توفیق عطائ فرما. آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علٰی سیدناو مولانا محمد صاحب الفرق والفرقان وجامع الورق و منزلہ من سمائ القرآن وعلی اٰل محمد وسلم تسلیما کثیراً کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197375 views A Simple Person, Nothing Special.. View More