حقیقت میلاد النبی - تریسٹھواں حصہ

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمایاں پہلوؤں پر اِجمالی نظر:-

اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کے مطابق جہاں ایک طرف اُس کے مادّی اور جسمانی حوائج کی تکمیل کا اہتمام کیا وہیں بقائے حیات کی خاطر اُسے ایسی ہدایت و رہنمائی سے بھی بہرہ ور فرمایا جس سے وہ اپنی اَخلاقی و رُوحانی زندگی کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ بر آہو سکے۔ قافلۂ رُشد و ہدایت کا وہ نورانی و رُوحانی سفر جس کی اِبتداء بنی نوع انسان کے جد اَمجد حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش سے ہوئی، یکے بعد دیگرے مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کے زمانوں سے گزرتا ہوا بھٹکی ہوئی نسلِ انسانی کو راہِ ہدایت سے ہم کنار کرتا رہا۔ لیکن گمراہی و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تاریخِ انسانی پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا اور ظلم و بربریت کے شکنجوں میں جکڑی اِنسانیت شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پسنے لگی۔ جب تاریخِ انسانی کی طویل ترین رات اپنی ہیبت کی انتہا کو پہنچ گئی تو قانونِ قدرت کے مطابق ظلمتِ شب کے دامن سے ایک ایسی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی جو قیامت تک کے لیے غیر فانی اور سرمدی اُجالوں کی نقیب بن گئی۔ بلادِ حجاز کی مقدس فضائیں نعرۂ توحید کی صداؤں سے گونجنے لگیں، وادی مکہ میں اس نادرِ روزگار ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے چشمِ فلک ابتدائے آفرینش سے منتظر تھی اور روحِ عصر جس کے نظارے کے لیے بے قرار تھی۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات نے اِس خاک دان کا مقدر بدل ڈالا، انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں وہ روح پھونک دی جس سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ محسنِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ اَقدس میں حسن وجمالِ ایزدی کے جملہ مظاہر اپنی تمام تر دل آویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوئے کہ تمام حسینانِ عالم کے سراپے ماند پڑ گئے اور شاعر کو بے اختیار کہنا پڑا :

ز فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست

(سر سے پاؤں تک جہاں بھی میں دیکھتا ہوں حسنِ سراپا کی تجلی دل کے دامن کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔)

میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس صبح اَوّلیں سے اب تک چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی جب اس عظیم ترین ہستی کے پردہ عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو مسلمانانِ عالم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ماہِ ربیع الاول کا یہ مقدس دن اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نویدِ جشن لے کر طلوع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس روزِ سعید کو بڑھ چڑھ کر مناتا ہے۔
ذیل میں ہم جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر ایک اِجمالی نظر ڈالیں گے تاکہ عمرانی تناظر میں اس کا کوئی گوشہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ رہے :

1۔ شرعی پہلو (Shariah aspect):-

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے شرعی پہلو کو ہم نے شرح و بسط کے ساتھ گزشتہ اَبواب میں اُجاگر کر دیا ہے۔ یہاں باب کی مناسبت سے صرف چند حوالہ جات پر اِکتفا کیا جائے گا :
(1) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تذکیر

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍO

’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ (اے موسیٰ!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی اُمتوں پر آچکے تھے)، بے شک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے (اور) خوب شکر بجا لانے والے کے لیے نشانیاں ہیںo‘‘

ابراهيم، 14 : 5

حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

بينا موسي عليه السلام في قومه يذکرهم بأيام اﷲ، وأيام اﷲ بلاؤه ونعماؤه.

’’ہم میں موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاتے تھے۔ اور اللہ کے دنوں سے مراد (اس کی طرف سے) مصائب اور نعمتوں کے اترنے کے دن ہیں۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9 : 342

مفسرین کرام نے وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اﷲِ کی تفسیر کے ذیل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے مراد ہے:

بنعم اﷲ عليهم.

’’اُن پر اللہ کی نعمتوں کا اُترنا۔‘‘

1. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9 : 341
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 5 : 6
3. شوکاني، فتح القدير، 3 : 95

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام وَر تابعی شاگرد مجاہد اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کرتے ہیں :

بالنعم التي أنعم بها عليهم : أنجاهم من آل فرعون وفلق لهم البحر وظلل عليهم الغمام وأنزل عليهم المن والسلوي.

’’اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرنا جو اس نے ان پر نازل کیں : اس نے ان کو آلِ فرعون سے نجات دی، ان کے لیے سمندر کو پھاڑا، ان کے اوپر بادلوں کا سایہ کیا اور ان پر من و سلوی اتارا۔‘‘

1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 13 : 184
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 5 : 6

یہ آیت اتارنے کا مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل اﷲ کے دنوں کی یاد منائیں تاکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی ان دنوں کی یاد مناتی رہیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان اَیام میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا تھا : انہیں فرعون کی سختیوں سے نجات دی گئی، فرعون کو غرقِ نیل کرکے انہیں اس میں سے صحیح سلامت نکالا گیا، اُن پر سخت دھوپ میں بادلوں کا سایہ کیا گیا حتی کہ ان کی خوراک کا بھی آسمانی بندوبست کیا گیا اور وہ من و سلویٰ سے نوازے گئے۔ اتنی کثیر نعمتوں سے مالا مال کرنے کے بعد ان کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ مرورِ اَیام سے وہ دن جب بھی لوٹ کر آئے تو ان پر لازم ہے کہ اُس دن ملنے والی نعمتیں یاد کرکے اپنے رب کا شکر بجا لائیں اور خوب عبادت کریں۔

(2) یومِ نزولِ مائدہ کو بہ طورِ عید منانا:-

قرآن حکیم فرماتا ہے :

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَO

’’عیسیٰ بن مریم نے عرض کیا : اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہو جائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)، اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہےo‘‘

المائدة، 5 : 114

ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے جامع البیان فی تفسیر القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں قولِ صحیح نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس دعا کا معنی یہ ہے کہ نزولِ خواں کا دن ہمارے لیے عید ہو جائے، اس دن ہم اسی طرح نماز پڑھیں گے جیسے لوگ عید کے دن نمازِ شکرانہ ادا کرتے ہیں۔

طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 7 : 177

اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ وہ نزولِ مائدہ کا دن بہ طورِ عید منائیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں، اﷲ کی عبادت کریں اور شکر بجا لائیں۔ اِس سے یہ اَمر بھی مترشح ہوا کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہوتی ہے، اس دن شکر الٰہی کے ساتھ اِظہارِ مسرت کرنا، عبادت بجا لانا اور اس دن کو عید کی طرح منانا طریقہ صالحین اور اہل اﷲ کا شیوہ رہا ہے۔ امام الانبیاء، محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری کا دن خدائے بزرگ و برتر کی عظیم ترین نعمت اور رحمت کے نزول کا دن ہے، کیوں کہ اسے خود اﷲ نے نعمت قرار دیا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا، شکر اِلٰہی بجا لانا اور اظہارِ مسرت و شادمانی کرنا انتہائی مستحسن و محمود عمل ہے، اور یہ ہمیشہ سے مقبولانِ الٰہی کا طریقہ رہا ہے۔

جاری ہے----
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 94050 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.