اسلام کا اخلاقی نظام 1

اپنے گزشتہ مضمون میں ہم نے اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے منتخب تحریر آپ کے سامنے رکھی تھی، اگرچہ اب ہمارا ارادہ اسلام کے معاشرتی نظام کو بیان کرنے کا تھا لیکن اس سے پہلے جب تک ہم اسلام کے اخلاقی نظام کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک باقی چیزیں سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہوگا اس لیے اس مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ اسلام کے اخلاقی نظام کے حوالے سے منتخب تحریر آپ تک پہنچائی جائے۔

انسان کے اندر اخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دوسری صفات کو ناپسند کرتی ہے۔ یہ حس انفرادی طور پر اشخاص میں چاہے کم و بیش ہو مگر مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اخلاق کے بعض اوصاف پر خوبی کا اور بعض پر برائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے، سچائی، انصاف، پاس عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ اور کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب جھوٹ، ظلم، بدعہدی اور خیانت کو پسند کیا گیا ہو۔ ہمدردی، رحم، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے، اور خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، اولوالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں جو داد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری، چھچھورپن، تلون مزاجی، پست حوصلگی اور بزدلی پر کبھی تحسین و آفرین کے پھول نہیں برسائے گئے۔ ضبطِ نفس، خود داری، شائستگی اور ملنساری کا شمار ہمیشہ سے خوبیوں ہی میں ہوتا رہا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندگیِ نفس، کم ظرفی، بدتمیزی اور کج خلقی نے اخلاقی محاسن کی فہرست میں جگہ پائی ہو۔ فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی اور احساسِ ذمہ داری کی ہمیشہ عزت کی گئی ہے اور فرض ناشناس، بے وفا، کام چور اور غیر ذمہ دار لوگوں کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی کے اچھے اور برے اوصاف کے معاملہ میں بھی انسانیت کا معاملہ تقریباً متفق علیہ ہی رہا ہے۔ قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم وانضباط ہو، تعاون اور امداد باہمی ہو، آپس کی محبت اور خیرخواہی ہو، اجتماعی انصاف اورمعاشرتی مساوات ہو۔

تفرقہ، انتشار، بدنظمی، بے ضابطگی، نااتفاقی، آپس کی بدخواہی، ظلم اور ناہمواری کو اجتماعی زندگی کے محاسن میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ کردار کی نیکی و بدی کا بھی ہے۔ چوری، زنا، قتل، ڈاکہ، جعل سازی اور رشوت خوری کبھی اچھے افعال نہیں سمجھے گئے۔ بدزبانی، مردم آزاری، غیبت، چغل خوری، بہتان تراشی اور فساد انگیزی کو کبھی نیکی نہیں سمجھا گیا۔ مکار، متکبر، ریاکار، منافق، ہٹ دھرم اور حریص لوگ کبھی بھلے آدمیوں میں شمار نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسنِ سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری اور مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ہمیشہ نیکی سمجھی گئی ہے۔ پاک دامن، خوش گفتار، نرم مزاج اور خیراندیش لوگ ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ انسانیت اپنا اچھا عنصر انھی لوگوں کو سمجھتی رہی ہے جو راست باز اور کھرے ہوں۔ جن پر ہر معاملہ میں اعتبار کیا جاسکے۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں اور قول و فعل میں مطابقت ہو، جو اپنے حق پر قانع اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں فراخ دل ہوں، جو امن سے رہیں اوردوسروں کو امن دیں، جن کی ذات سے ہر ایک کو خیر کی امید ہو اور کسی کو برائی کا اندیشہ نہ ہو۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالمگیر حقیقتیں ہیں جن کو سب انسان جانتے چلے آرہے ہیں۔ نیکی اور بدی کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں ہیں کہ انہیں کہیں سے ڈھونڈ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں، جن کا شعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآّن مجید اپنی زبان میں نیکی کو معروف اور بدی کو منکر کہتا ہے۔ یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے سب انسان بھلا جانتے ہیں۔ اور منکر وہ ہے جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حیثیت سے نہیں جانتا۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے۔"فَاَلھَمھا فُجُورَھَا وتقوٰھَا"(الشمس)
"یعنی نفسِ انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے۔

اخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں؟

اب سوال یہ ہےکہ اگر اخلاق کی برائی اور بھلائی جانی پہچانی چیزیں ہیں اور دنیا ہمیشہ بعض صفات کے نیک اور بعض کے بد ہونے پر متفق رہی ہے، تو پھر دنیا میں یہ مختلف اخلاقی نظام کیسے ہیں؟ ان کے درمیان فرق کس بنا پر ہے؟ کیا چیز ہے جس کے باعث ہم کہتے ہیں کہ اسلام اپنا ایک مستقل اخلاقی نظام رکھتا ہے؟ اور اخلاق کے معاملہ میں آخر اسلام کا وہ خاص عطیہ (Contribution) کیا ہے جسے اس کی امتیازی خصوصیت کہا جاسکے۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے جب ہم دنیا کے مختلف اخلاقی نظاموں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پہلی نظر میں جو فرق ہمارے سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف اخلاقی صفات کو زندگی کے مجموعی نظام میں سمونے اور ان کی حد،ان کا مقام اور ان کا مصرف تجویز کرنے اور ان کے درمیان تناسب قائم کرنے میں یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پھر زیادہ گہری نگاہ سے دیکھنے پر اس فرق کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دراصل وہ اخلاقی حسن و قبح کا معیار تجویز کرنے اور خیر و شر کے علم کا ذریعہ متعین کرنے میں مختلف ہیں۔ اور ان کے درمیان اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ قانون کے پیچھے قوتِ نافذہ(Sanction) کون سی ہے جس کے زور سے وہ جاری ہو اور وہ کیا محرکات ہیں، جو انسان کو اس قانون کی پابندی پر آمادہ کریں۔ لیکن جب ہم اس اختلاف کی کھوج لگاتے ہیں تو آخر کار یہ حقیقت ہم پر کھلتی ہے کہ وہ اصلی چیز جس نے ان سب اخلاقی نظاموں کے راستے الگ کردیے ہیں، یہ ہے کہ ان کے درمیان کائنات کے تصور، کائنات کے اندر انسان کی حیثیت، اور انسانی زندگی کے مقصد میں اختلاف ہے اور اسی اختلاف نے جڑ سے لے کر شاخوں تک ان کی روح، ان کے مزاج اور ان کی شکل کو ایک دوسرے سے مختلف کردیا ہے۔ انسان کی زندگی میں اصل فیصلہ کن سوالات یہ ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ ایک ہے یا بہت سے ہیں؟ جس کی خدائی مانی جائے اس کی صفات کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ اس نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں یا نہیں؟ جواب دہ ہیں تو کس چیز کی جواب دہی ہمیں کرنی ہے؟ اور ہماری زندگی کا مقصد اور انجام کیا ہے جسے پیش نظر رکھ کر ہم کام کریں؟ ان سوالات کا جواب جس نوعیت کا ہوگا اسی کے مطابق نظام زندگی بنے گا اور اسی کے مناسبِ حال نظامِ اخلاق ہوگا۔
اس مختصر گفتگو میں میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں دنیا کے نظام ہائے حیات کا جائزہ لے کر یہ بتا سکوں کہ ان میں سے کس کس نے ان سوالات کا کیا جواب اختیار کیا ہے اور اس جواب نے اس کی شکل اور راستے کے تعین پر کیا اثر ڈالا ہے ۔ میں صرف اسلام کے متعلق عرض کروں گا کہ یہ ان سوالات کا کیا جواب اختیار کرتا ہے اور اس کی بنا پر کس مخصوص قسم کا نظام اخلاق وجود میں آیا ہے۔
( جاری ہے )

 

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453505 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More