اسلام کا سیاسی نظام 1

اس وقت دنیا کی جو صورتحال ہے اس میں مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہ ےاور اسلامی تعلیمات کو فرسودہ اور دقیانوسی کہا جارہا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اسلام نعوذ باللہ آؤٹ آف ڈیٹ ہوگیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس میں پوری دنیا کی فلاح و بہبود کا سامان موجود ہے۔ لیکن دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ دنیاوی کام ہیں یہ جدید تعیلم یافتہ لوگ ہی کرسکتے ہیں اور یہ َ َ مولوی َ َ کیا جانے کہ حکومت کیا ہوتی ہے۔ اسی طرح سادہ لوح مسلمانوں کو یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ سیاست اور حکومت مذہبی لوگوں کا کام نہیں نہ ہی ان کے پاس کوئی نظام موجود ہے اس لیے جو دین کی خدمت کرنا چتا ہے اسے چاہیے کہ وہ یہ سارے دنیاوی کام چھوڑ کر بس اللہ اللہ کرے اور کسی کام میں دخل نہ دے۔ یہ ایک غلط سوچ ہے اس لیے کہ اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل دین ہے۔ یاد رکھیں کہ مذہب کچھ عقائد اور رسومات کے مجموعے کا نام ہے۔ جبکہ اسلام ایک دین ہے اور اس میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی موجود ہے اور دین کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ ہونا چاہئے۔ یہی بات اسلام بیزار لوگوں کو ناپسند ہے کیوں کہ جب اسلام کو بطور دین اپنایا جاتا ہے تو اس میں پھر اپنی مرضی ختم کر کے خود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دین بیزار طبقہ خود کو بدلنے کو تیار نہیں ہے اس لیے وہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتا رہتا ہے۔ اس کی مثال اس لومڑی کی سی ہے جس کی دم ایک شکاری کے شکنجے میں پھنس کر ٹوٹ گئی، اب وہ چونکہ خود کو بدل نہیں سکتی تھی نہ ہی دوسری دم لگا سکتی تھی اس لیے اس نے جنگل کے تمام جانوروں سے کہنا شروع کردیا کہ دم تو بالکل بیکار ہے مجھے دیکھو میری دم نہیں ہے اور میں بہت مزے میں ہوں یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو موقع بہ موقع اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور معاملہ کوئی بھی ہو اس کو ملائیت یا مولوی ازم کے نام سے جوڑ کر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ملائیت اور مولوی ازم کی اسطلاح انگریز سامراج نے مسلمانوں کو دین سے متنفر کرنے لیے نکالی تھی اور آج دیسی اور کالے انگریز بھی اسلام کی بات کرنے والوں کو مولوی یا ملائیت کا نام دیکر اپنا دل خوش کرتے ہیں- یہاں ہم اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ مولانا سید ابوالا علیٰ مودوی کی تحریر سے کچھ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست کے تفصیلی نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں انھی کی مختصر تشریح کروں گا۔

توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے۔ حکومت و فرماں روائی اسی کی ہے، وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و اطاعت بلاشرکت غیرے اسی کے لیے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں، ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا کی موجودات پر حاصل ہیں اور خود یہ موجودات جن ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا حاصل کردہ ہے اور نہ اس کی بخشش میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہے، اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملہ میں دخل دینے کا حق ہے۔ یہ صرف اس خدا کا کام ہے جس نے ہم کو ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دنیا کی یہ بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔ توحید کا یہ اصولِ انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کردیتا ہے۔ ایک انسان ہو یا ایک خاندان، یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم ، یا مجموعی طور پر تمام دنیا کے انسان، حاکمیت کاحق بہرحال کسی کو بھی نہیں پہنچتا۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حکم "قانون" ہے۔

خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام "رسالت" ہے۔ اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں۔ ایک "کتاب"جس میں خود خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسری کتاب کی مستند تشریح جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول وعمل میں پیش کی ہے۔

خدا کی کتاب میں وہ تمام اصول بیان کردیے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ اور رسول نے کتاب کے اس منشا کے مطابق عملاً ایک نظامِ زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کردیا ہے۔ انھی دو چیزوں کے مجموعے کا نام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔

اب خلافت کو لیجیے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص کو اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ کے پیش نظر چار باتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جائیداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اس شخص کو آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ نے اس کے لیے مقرر کردی ہیں۔ چوتھے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اسے آپ کا منشا پورا کرنا ہوگا نہ کہ اپنا۔ یہ چار شرطیں نیابت کے تصور میں اس طرح شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خود بخود انسان کے ذہن میں آجاتی ہیں۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں کو پورا نہ کرے تو آپ کہیں گے کہ وہ نیابت کے حدود سے تجاوز کر گیا اور اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اسلام انسان کو خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصور میں یہی چاروں شرطیں شامل ہیں۔ اسلامی نظریہ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہوگی وہ دراصل خدا کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہوگی، جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کرکے اس کا منشا پورا کرنا ہوگا۔

خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اور سمجھ لیجیے کہ اس معنی میں اسلامی نظریہ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان کو خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کر کے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی مثال ہے اور یہ خلافت اس کے ہر فرد کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اسلام میں"جمہوریت " کی ابتدا ہوتی ہے۔اسلامی معاشرے کا ہر فرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر کے حصے دار ہیں۔ کسی کو کسی پر نہ ترجیح حاصل ہے اور نہ یہ حق پہنچتا ہے کہ اسے ان حقوق واختیارات سے محروم کرسکے۔ ریاست کا نظم ونسق چلانے کے لیے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انھی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک حصہ اسے سونپیں گے۔ اس کے بننے میں ان کی رائے شامل ہوگی اور ان کے مشورے ہی سے وہ چلے گی۔ جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد کھو دے گا اسے حکومت کے منصب سے ہٹنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے،اتنی مکمل جتنی اور کوئی جمہوریت مکمل ہوسکتی ہے البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریہ سیاسی "جمہوری حاکمیت" کا قائل ہے اور اسلام "جمہوری خلافت" کا ۔ وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں، یہاں ان کو اس شریعت کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ سے دی ہے۔ وہاں حکومت کا کام جمہور کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت اور اس کے بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیارات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِ آئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔

اب میں آپ کے سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضح نقشہ پیش کروں گا جو توحید، رسالت اور خلافت کی ان بنیادوں پر بنتی ہے۔ اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو قائم کرے، فروغ دے اور پروان چڑھائے جن سے خداوندِ عالم انسانی زندگی کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوندِ عالم کو پسند نہیں ہے۔ اسلام میں ریاست کا مقصد محض انتظام ملکی ہے اور نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرے۔ اس کے بجائے اسلام اس کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنے تمام وسائل و ذرائع اور اپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہییں، اور وہ یہ ہے کہ خدا اپنی زمین میں اور اپنے بندوں کی زندگی میں جو پاکیزگی، جو حسن، جو خیر و صلاح، جو ترقی و فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رونما ہو اور بگاڑ کی ان تمام صورتوں کا سدباب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو اجاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنے والی ہیں۔ اس نصب العین کو پیش کرنے کے ساتھ اسلام ہمارے سامنے خیر و شر دونوں کی ایک واضح تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں کو صاف صاف نمایاں کردیا گیا ہے۔ اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہر ماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بناسکتی ہے۔
(جاری ہے )
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453525 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More

Islam ka Siyasi Nizam - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Islam ka Siyasi Nizam and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Islam ka Siyasi Nizam.