بیس رکعات تراویح اور ائمہ احناف

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ :امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے امام صاحب سے دریافت کیا ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ سے بیس رکعات کے بارے میں کو ئی بات معلوم تھی ۔امام صاحب نے فر مایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کو ایجاد کر نے والے نہ تھے(یعنی بلا شبہ حضرت عمر کو بیس رکعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات ضرور معلوم تھی ورنہ وہ اپنی طرف سے بیس کی تعین نہ کر دیتے ) (فیض الباری شرح بخاری ،العرف الشذی ، بحر الرائق ، طحاوی )

آثار امام ابو یوسف میں ہے ۔ یوسف اپنے والد امام ابو یوسف سے وہ امام ابو حنیفہ سے وہ حماد سے وہ ابرا ہیم نخعی رحمہم اللہ سے وایت کر تے ہیں کہ لوگ ( صحابہ وتابعین ) رمضان میں پانچ ترویحات پڑھتے تھےِ (واضح ہو ہر ترویحہ چار رکعت کا ہوتا ہے ،اس طرح پانچ ترویحات ،بیس رکعتں ہوگئیں )

امام شمس الائمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ :
امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب مبسوط جو کہ امام محمد رحمہ اللہ علیہ کی ظاہر الروایات پر مشتمل ہے ۔میں فر ماتے ہیں ۔

تراویح ہمارے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعتیں ہیں اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سنت اس میں چھتیس رکعتیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جو شخص امام مالک کے قول اور مسلک پر عمل کر نا چاہے ،اسے مناسب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے بیان کے مطابق عمل کرے ۔ یعنی جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھے کیونکہ یہی سنت ہے ، پھر ( 16 رکعتیں ) تنہا پڑھے ، ہر چار رکعات میں دو سلام ہوں ( یعنی دو دو رکعتیں کر کے ) یہ ہمارا مذہب ہے ،اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے فر مایا کہ کل کی کل 36 رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیںِ ( مبسوط ج2)

ملک العلماء علامہ کا سانی رحمۃ اللہ علیہ :
ملک العلماء علامہ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی لکھتے ہیں ۔تراویح کی مقدار بیس رکعات ہے دس سلاموں سے ، پانچ ترویحات میں ، ہر دو سلام میں ایک ترویحہ ہوگا، یہی عالم علماء کا قول ہے ۔ اور امام مالک نے ایک قول میں چھتیس رکعات اور ایک قول میں چھبیس رکعات بیان فر مائی ہے ۔اور صحیح عام علماء کا ہی قول ہے اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے حضرت عمر نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا ، پس انہوں نے ان کو ہر رات میں بیس رکعتیں پڑھائیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔ پس صحابہ کرام کی طرف سے بیس رکعات پر اجماع ہو گیا ۔
( بدائع الصنائع ج1)

علامہ بر ہان الدین مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ :
صاحب ہدایہ علامہ بر ہان الدین مر غینای نے بھی بیس رکعات تراویح کو سنت قرار دیا ہے اور یہ بھی فر مایا کہ امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے بیس رکعات تراویح کا مسنون ہو نا روایت کیا ہے ۔والاصح انھا سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ ( ہدایہ ج1 ص 151)

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ :
شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں ۔تراویح کی تعداد بیس رکعت ہے ،اسی کے قائل ہیں امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور قاضی عیاض نے یہی بیس رکعتیں جمہور علماء سے نقل کی ہیں اور بیان کیا ہے کہ اسود بن یزید چالیس رکعتیں پڑھتے تھے اور سات وتر اور امام مالک کے نزدیک چھتیس رکعتیں ہیں وتر کے علاوہ ۔ اس سلسلے میں اہل مدینہ کے عمل سے استدلال کیا ہے اور ہمارے اصحاب اور شوافع اور حنابلہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے بیہقی نے سند صحیح سے صحابی رسول حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعت پڑھتے تھے اور اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی ۔

امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں :

و اکثر اہل العلم علی ماروی عن علی و عمر غیرہما من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشرین رکعت و ہو قول سفیان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی ہکذا ادرکت ببلد مکتۃ یصلون عشرین رکعت.
(جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قیام شہر رمضان، جلد 1)
Ali raza
About the Author: Ali raza Read More Articles by Ali raza: 10 Articles with 25759 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.