ایران و پاکستان کشیدگی سے عالمی میڈیا کی توجہ غزہ سے بٹ گی

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقہ پنجگور میں ایران کے فضائی حملے اور پھر جمعرات کے روز ایران کے صوبے سیستان میں پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد، دونوں مُلکوں کے تجزیہ کار اس بات پر حیران ہیں کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا اور اس کی وجہ آخر کیا بنی جبکہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات بہتری کی طرف تیزی سے گامزن کی طرف جارہے تھے کہ یہ یکایک اچانک یہ کیوں رونما ہوا.

جبکہ ان دونوں ممالک کی بحری فوجیں مشترکہ مشقیں بھی جارہی تھیں۔ جبکہ پاکستانی وفد چاہ بہار میں موجود تھا۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطح پر تجارت کو فروغ دینے کے لئے سنجیدہ مذاکرات ہو رہے تھے تو پھر یہ اچانک کیا ہوا؟

بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا کوئی تصادم بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ بلکہ دونوں ممالک کے مفادات بھی مشترکہ نظر آرہےتھے۔ پھر یکدم یہ اچانک ایران کی جانب سے حملہ کیوں کیا گیا اور یہ کہنا کہ اس نے وہاں پناہ لئے ہوئے ایرانی علیحدگی پسندوں کو ہدف بنایا ہے۔ کچھ زیادہ سمجھ سے بالاتر نظر آتا ہے.

تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب اس حملے میں ان کا کردار ہو ۔ دنیا بھی جانتی ہے کہ پاسداری انقلاب مُلکی دفاع کے معاملات پر وہ اپنے فیصلے اور خاص کر دفاع نوعیت کے معاملات میں وہ اپنے طور پر فیصلے اور کارروائیاں خود کرتے ہیں۔ اور اگر یہ ہی حقیقت میں بات ہے تو خود ایران کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو اس بارے میں سوچ و بچار کرنا چاہیے کہ کسی پڑوسی مُلک کی سرحد پار میزائیل پھیکنا وہ بھی اسلامی مُلک میں جو ہمیشہ خراب سے خراب حالت میں بھی ایران کے کندھے سے کندھا ملاکر اس کا ہر اوّل ساتھ دیا.

ایران سے یہ ہرگز توقع نہیں تھی. جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ جوابی کارروائی اسکی مجبوری تھی۔ ورنہ اسے پاکستان کی کمزوری سمجھا جاتا اور خطے کے دوسرے بہروپیے ایکٹر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے۔ بلکہ آنہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کا تو خیال ہے کہ پاکستان کو اس سے بھی زیادہ سخت انداز میں جواب دینا چاہئیے تھا۔

اس وقت دونوں ملکوں کے مفاد اس ہی میں میں ہے کہ اس معاملے کو زیادہ نہ طول نہ ہونے دیں۔ چین جس کے دونوں ممالک سے اچھے تعلقات ہیں. چین اس وقت اپنی پوری کوشش میں لگا ہواہے کہ بات کو بڑھنے نہ دیا جائے۔

اکثر بلوچستان کے لوگ اس کو بلوچ شورش کا مسئلہ نظر آتا ہے جو بنیادی طور پر پاکستان اور ایران دونوں ہی کے لئے کافی ادوار سے پریشانی کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔ کئی عرصے قبل دونوں ملک اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ اس بارے میں ایک دوسرے کو سرحدی علاقوں اور ان کی معلومات ایک دوسرےے کو فراہم کریں گے۔ لیکن ایسا نظر آرہا ہے کہ ایک جانب یا پھر دونوں ہی جانب اس سلسلے میں کچھ غفلت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور نوبت جنگ کی دہلیز سے یہاں تک پہنچی۔

ان دونوں ملکوں کے لیے اس وقت یہ صورت حال ان دونوں کے مشترکہ دشمنوں کے لئے کافی بہتر ہوگی اور اگر اسے اب فوری طور پر قابو میں نہ کیا گیا تو مُسلمان مُلک کے دشمن اس صورت حال سے فائدہ جی بھر کے فائدہ اُٹھایں گے.
ان حالت سے اس کا فوری نقصان تو یہ سامنے آجائیگا کہ اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ جو اسوقت پوری طرح غزہ میں ہو نے والی جنگ پر ہے وہ بٹ جائے گی۔ اور اس جنگ اور اس کے نقصانات کی پوری کوریج نہیں ہو سکے گی۔ جس سے اسرائیل کا بدبودار چہرہ عوام کے سامنے آجاتا. . اس وقت چین کے رول کو بہت اہمیت دینی چاہیے اور اپنے مفادات کے تحت بھی چین یہ کبھی گوارا نہیں کرے گا کہ اسکے دو دوستوں یا اتحادیوں کے درمیاں کشیدگی ایران اور عراق کی طرز پر نمودار نہ ہو.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81192 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.