“ کیا پاکستان خطے میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے؟”

پاکستان گزشتہ کئی دہایوں سے مختلف اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہے. ملک کی گرتی ہوئی معیشت، سیاسی کشیدگی اور شدت پسندی کے آئے دن واقعات نے پاکستان کو متعدد محاذوں پر لاکھڑا کر رکھا ہے۔

اور حال ہی میں ایران کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی جہاں پاکستان کے لیے ایک پریشان کُن لمحات ہے وہیں اسے دونوں ممالک کے درمیان اسلامی و برادرانہ تعلقات کو بھی ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔

اس سے پہلے پاکستان کے اپنے مشرقی اور مغربی پڑوسی ممالک انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اب پہلے والے صورتحال پر نہیں اور ان سرحد پار سے بھی آئے دن چھیڑ چھاڑ مختلف حوالوں سے ہوتی رہتی ہے. ایسے میں ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو اس خطے میں سفارتی اور جغرافیائی اعتبار سے بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

ایران کی جانب سے 16 جنوری کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ’سبز کوہ‘ میں شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق دو بچے ہلاک جبکہ تین بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔

ایرانی حملے کا ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان نے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں ایرانی حکام کی جانب سے نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

اگر حالیہ ہفتوں میں پاکستان کے اندورنی حالات پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت پاکستان میں عام انتخابات ہونے میں صرف کچھ دن باقی رہے گئے ہیں جبکہ ملک کو معاشی بدحالی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک سے لیے گئے قرض واپس کرنے کی معیاد بڑھانے کی درخواست کی جارہی ہیں.

اس دوران دنیا میں یہ تاثر اُبھرا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد پہلے سے اندورنی مسائل سے دوچار پاکستان اب اپنے تین ہمسایہ ممالک انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی محاذ آرائی کو کس طرح جھیل پائیگا.

پاکستانی سیکورٹی ادارے پہلے ہی ملک کے اندر بہت سے تخریب کاری و شدت پسندی اور باغی تنظیموں سے سرپیکار ہے اور حالیہ صورتحال میں ایران کی جانب سے حملے کیے جانے پر پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر مزید دباؤ آگیا ہے.

ان حالات میں سوالات یہ اُبھرتے ہیں کہ پاکستان کی تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ کیا بنی ہے؟ کیا پاکستان اپنی جغرافیائی، سکیورٹی صورتحال یا بین الاقوامی طاقتوں کے کردار کا اثر ہاکستان میں کچھ زیادہ نہیں بڑھ رہا ہے؟ یا پاکستان علاقائی سطح پر بالکل تنہا ہوتا جارہا ہے ؟

اس وقت پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کو جغرافیائی سیاست کے تناظر میں یہ ہی نظر آتا ہے کہ یہ خطہ گذشتہ تین، چار دہائیوں سے جنگ و جدل ، افراتفری میں ہی رہا ہے ، یہاں پہلے روس اور افغانستان کی آپس میں برسرپیکار تھے. اس کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اپنا کردار ادا کیا اور اب شدت پسندی نے بھی اس علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے.

جس سے یہ متاثر مُلک متاثر ہورہے ہیں ۔ ایسے میں پاکستان اس کرہ ارض میں واحد اسلامی جوہری قوت کا حامل ملک ہے اور وہ اس تمام صورتحال سے زیادہ متاثر مُلک رہا ہے۔جبکہ پاکستان کے ہمیشہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ہمیشہ بھائی چارگی ، اخوت و محبت سے اچھے رہے ہیں.

اس میں چین، ایران اور افغانستان سے ہمیشہ تاریخی اور دیرینہ تعلقات رہے ہیں مگر واحد بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا سبب دنیا بھر کو معلوم ہے کہ وہ خطے میں اور خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں بالادستی چاہتا ہے جبکہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازع علاقہ کی صورت میں دیکھتا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کا سیاسی حل چاہتا ہے۔ جو ایسے اقوام متحدہ نے دیا ہوا ہے.

اس وقت دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے اور گذشتہ سات دہائیوں میں اس میں سردمہری تو کہیں نرمی و گرمی آتی رہتیں ہیں . پاکستان اس عرصے میں اپنے روایتی دیرینہ حریف ملک کے ساتھ ی سرحد سے دیگر ممالک میں منتقل کردیا اس سے ہماری خارجہ پالیسی کا پول کُھلتا ہے.
پاکستان اس مسئلے کو اپنے ہمسایہ مُلک افغانستان کے ساتھ تواتر کے ساتھ اجاگر کرتے رہے ہیں۔ ’ایران کے ساتھ حالیہ کشیدہ صورتحال نئی نہیں ہے بلکہ یہ معاملات ستّر کی دہائی کے بعد سے پہلے کہ چلے آ رہے ہیں اور پاکستان کا ایران کے ساتھ ایک مشترکہ طریقہ کار بھی طے کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان نے سنہ 2012 میں جیش العدل کے لوگوں کو پکڑ کر ایران کے حوالے کیا تھا۔

جبکہ حالیہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی مسائل کے علاوہ کچھ مسائل مذہبی فرقوں و تنظیموں کے باعث بھی رہے ہیں لیکن پاکستان حکمران و ایرانی حکمراں نے ہمیشہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے انھیں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس وقت ’ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجوہات ایران کے اندر بھی ٹریس ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب چاہ بہار میں پاکستانی وفد موجود تھا۔‘

جب کہ پاکستان نے ہمیشہ سے ’افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ پاکستان نے سٹرٹیجک برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو کبھی نیچے نہیں آنے دیا.

اس وقت پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ جب انڈیا میں الیکشن ہو تو وہ پاکستان کی سرحد پر کوئی چھڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا اس وقت پاکستان کی جانب سے ایران پر جوابی حملہ صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ انڈیا کو بھی ایک سخت پیغام تھا کہ وہ کیس مس ایڈونچر کے بارے میں نہ سوچے۔

پاکستان کے ’ایران کے ساتھ ہمیشہ سےاچھے تعلقات استوار رہے ہیں۔ کچھ بارڈر منیجمنٹ کے مسائل تھے وہ بھی حالیہ ادوار میں اضافہ ہوا ہے. اس وقت ایران کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا ہے. اس بیان سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ معاملات کو سیدھا کرنا چاہتا ہے. جہاں تک افغانستان کے ساتھ تعلقات ہیں تو یہ جیوپولیٹکل مسئلے کی باقیات ہیں۔’یہ بڑی طاقتوں کا پھیلایا ہوا تفن ہے جسے صاف کرنے میں وقت تو لگے گا.

حالیہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک خاص رپورٹ میں یہ صورتحال عیاں ہوئی ہے کہ افغانستان میں تقریبًا آٹھ سے دس ہزار ایسے کرائے کے دہشتگرد موجود ہیں جو پاکستان، چین، روس، ایران سمیت دیگر ممالک کے خلاف سرگرمیاں جاری کی ہوئی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو تنازع صرف سکیورٹی سے متعلق ہے اور پاکستان نے متعدد بار افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے متعلق آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی دیے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی، تجارت اور سفارتی تعلقات رہے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم رہے ہیں تاہم 2000 کی دہائی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ اس وقت آیا جب امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

حالیہ تناؤ افغانستان سے پاکستانی حکومت کی جانب سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے اعلان کے بعد دونوں حکومتوں میں سردمہری میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے خواہ وہ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دینے کی بات ہو یا مالی معاونت ہو۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بھی بارڈر منیجمنٹ کے مسائل ہیں اور اس بارے میں پاکستانی بارڈر مینیجمنٹ نے باآور بھی کرایا مگر ان کا اس پہ کوئی اثر نہ پڑا جبکہ ’افغانستان سے پاکستان کے تجارتی، ثقافتی، تاریخی تعلقات کئی دہائیوں پرانے ہیں باور یہ قائم و دائم برقرار رہیں گے۔

جبکہ پاکستان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ کی طرح انڈیا نے اس مسئلہ کو کبھی بھی مثبت انداز میں حل کرنے کی کوشش نہیں کی اور رہی بات پاکستان کی طرف کافی مرتبہ اپنے مسئلوں کو گفت وشنید سے حل کرنے کی کوشش بھی کیں مگر بات وہیں آجاتی ہے. انڈیا بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا.

پاکستان کو ہمیشہ سے ’انڈیا سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی مبینہ فنڈنگ کر کے پاکستان میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے اور ماضی میں کلبھوشن یادیو کے واقعے نے یہ ثابت کیا کہ انڈیا نے ایران کے راستے بھی پاکستان ملک میں انتشار و افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔

جبکہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات اور حالیہ کشیدگی سے پہلے ایران کے ساتھ پاکستان کا کوئی بنیادی تنازع سرے سے نہیں ہے۔
جبکہ ایران کے بارے میں پاکستانی تجزیہ نگار یہی کہتے پائے گئے ہیں کہ ’ایران انڈیا نہیں ہے اور اس کے ساتھ بیک ڈور چینل خاموش سفارتکاری‘ کے ذریعے پاکستانی رابطے شروع بھی ہوچکے ہیں . انشاء اللہ جلدی ایران اور پاکستان کی عوام کو خوشی مل پائے گی اور یہ ہی امید ہے کہ ان الیکشن میں کسی بھی جمات کی بنے والی حکومت ان تعلقات کو پاکستان کی بہتری کی طرف اچھا قدم اُٹھائیں گے جو دونوں مُلکوں اور عوام کی بہتری کے لیے ہوئیگا.

جبکہ گذشتہ روز پاکستان نے ایران میں جوابی حملے کے بعد ایرانی حکومت نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ اس میں غیر ایرانی باشندے مارے گئے ہیں، جس سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے دونوں اسلامی ہمسایہ ممالک میں چند ایسے گُھس بیٹھیے موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لیے کارروائی ہوتی آرہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور اس سے ملے جُلے علاقوں میں متعدد بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گذشتہ کئی دہائیوں سے متحرک ہیں اور ان تنظیموں نے ماضی میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز، پولیس اور اہم تنصیبات پر کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہیں۔

اکثر پاکستانی حکام کی جانب پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر آکر گذشتہ کئی برسوں سے یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ ان علیحدگی پسند تنظیموں سے جُڑے عسکریت پسند ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ایران اور پاکستان کا نہیں ہے بلکہ ماضی میں سی پیک راہدری منصوبے پر حملے کی کاروائیاں بھی ہمسایہ ممالک کی سرزمین سے جا ملتے ہیں۔’چاہے وہ افغانستان ہو یا ایران اور اس کی ایک واضح مثال انڈین نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے جو نہ صرف جاسوسی بلکہ ملک میں دہشگردی کی کارروائیاں میں بھی شامل تھا.

پاکستانی عوام جانتی ہو کہ سنہ 2016 میں پاکستان نے انڈین نیوی کے ایک افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔پاکستانی سیکورٹی اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ ان کے متعلق یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

حالیہ کشیدگی کے دوران اکثر سیاسی لیڈران وہ تجزیہ نگار یہ کہتے پائے گئے کہ پاکستان علاقائی تنہائی کا شکار ہے۔ جبکہ ’پاکستان کے اس وقت بھی چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات ہیں. پاکستان اس خطے کا ایک جوہری ملک ہونے کے باعث بھی بڑی اہمیت کا حامل مُلک ہے۔

اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی مستقبل کی خارجہ پالیسی کو “ ریجنل وائز ری سیٹ کرئے. پاکستان کے چار ہمسائے چین، انڈیا، ایران اور افغانستان ہیں، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کہنے میں تو بہت اچھے ہیں . مگر یہ تعلقات آجکل کی دنیا میں ایک دوسرے کہ مفادات کی وجہ سے آگے بڑھتے ہیں. جبکہ ہماری یہ ہی کوشش ہونی چاہیے کہ خصوصاً ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں عدم اعتماد کی فضا جو عوام میں قائم ہے اس کو جتنا بھی جلد از جلد ختم ہونا چاہیے اور بہتر تعلقات استوار ہوں جو پاکستان , افغانستان اور ایران کے ساتھ ساتھ اس خطے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

پاکستان کو اپنی سہی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ چین، روس، ترکی، قطر اور سعودی عرب سے بات کرے کیونکہ ان ممالک کے ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی دیرینہ تعلقات ہیں . ان مُمالک کے ذریعے ہی علاقائی سفارتکاری کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ خطے میں پائیدار امن اور ترقی ہو جو اس خطے کے لیے بڑی اہمیت مستقبل میں بن گئی ہے. پاکستان کو آنے والے مستقبل کی حکمت عملی کے لیے ضرورت بن گئی ہے کہ پاکستان کو ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈر منیجمنٹ کے نظام کو مربوط کرتے ہوئے اپنے مسائل فورا حل کریں۔

اس وقت 'ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان اپنے تجارتی تعلقات میں بہتری لانے کی از سر نو کوشش کی شروعات کریں ، یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایران کے ساتھ سرحد پرامن رکھیں اور افغانستان کے ساتھ بھی بارڈر پر امن رکھنے کی کوشش کریں۔

اگرچہ اس وقت انڈیا کے ساتھ بارڈر پُرامن ہے لیکن اس کے ساتھ تعلقات میں بہت سرد مہری آئی ہوئی ہے اور اس کی وجہ خود انڈین مودی حکومت ہی ہے۔ آنے والے سالوں میں ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں چین کے کردار کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ کیونکہ چین نے پاکستان اور ایران دونوں ممالک میں بھاری سرمایہ کاری لگا رکھی ہے اور وہ نہیں چاہے گا کہ خطے میں عدم استحکام ہو اسی لیے اس نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

لیکن ایسی کیا وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے ان کی دہشت گردی کی جنگ کو اپنے ملک میں لے آیا اور آج پاکستان ہی ہر طرح سے چاہے وہ خارجی تعلقات ہوں یا اندرونی شورشیں ہوں یا سیاسی و معاشیاتی مسائل پاکستان ان میں آج بری طرح سے اُلجھا ہوا ہے یہ ہمارے گزشتہ دہائیوں کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے. جانے کب تک یہ بھگتے گا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.